- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سلطنت عثمانیہ حصہ 6 (1861_1774)
عبد الحمید اول 1774_1789مصطفیٰ ثالث کے انتقال کے بعد عبدالحمید اول 21 جنوری 1774 کو تخت نشین ہوا۔
عبدالحمید اول مصطفیٰ ثالث کا سوتیلا بھائی اور احمد ثالث کا بیٹا تھا۔
مصطفیٰ ثالث کے دور میں شروع ہوئی روس اور سلطنت عثمانیہ کی جنگ کا نتیجہ روس کی فتح کی نتیجے میں نکلا اور عثمانی افواج کو بری طرح شکست کے بعد روس سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا۔
عبدالحمید کے دور میں بھی عثمانی افواج کو جدید خطوط پر منظم کرنے کی کوشش جاری رہی اور اسی سلسلے کے تحت بحری افواج کے لیے تربیتی ادارہ قائم گیا۔
عبدالحمید اول کے دور کے آخری ایام میں ایک بار پھر روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی۔
7 اپریل 1789 کو سلطان عبدالحمید اول کا انتقال ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے بھی سلطان عبدالحمید کے پاس ایک وفد بھیجا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں فوجی امداد کی جائے مگر عثمانی سلطان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ اس وقت سلطنت عثمانیہ خود نامساعد حالات کا شکار ہے۔
سلیم ثالث 1789_1808
سلطان عبدالحمید اول کی وفات کے 7 اپریل 1789 کو سلیم ثالث تخت نشین ہوا اور یہ سلیم ثالث مصطفیٰ ثالث کا بیٹا تھا ۔
سلیم ثالث 24 دسمبر 1761 کو استنبول کے توپ کاپی محل میں پیدا ہوا تھا ۔
اپنے باپ کی طرح سلیم ثالث نے بھی عثمانی افواج کو جدید خطوط پر منظم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔
مگر یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ کی اندرونی حالت شدید خراب تھی جبکہ اس کے اردگرد تین بڑی طاقتیں تیزی سے اپنی طاقت بڑھا رہی تھیں جن میں روس،برطانیہ اور فرانس شامل تھی
اٹھارویں صدی کے آخر میں نپولین نے مصر پر چڑھائی کی تو سلیم ثالث نے نپولین کے خلاف برطانوی اور روسی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،نپولین کی فتوحات کے بعد اور اس کی طاقت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے سلیم ثالث نے نپولین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو ہی بہتر سمجھا ۔فرانس کی برطانوی اور روسی افواج کے ساتھ جنگ چھڑنے کی دیر تھی کہ سلطان سلیم کے خلاف بغاوت ہو گئی اور اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے 28 جولائی 1808 کو قتل کر دیا گیا۔
مصطفیٰ چہارم 1807_1808
سلیم ثالث کو بغاوت کے ذریعے سے ہٹانے کے بعد باغیوں نے مصطفی چہارم کو سلطان بنا دیا ۔مصطفی چہارم 29 مئی 1807 کو سلطنت عثمانیہ کا 29 واں بادشاہ بنا
چونکہ باغیوں نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تخت پر بٹھایا تھا تو اسی وجہ سے یہ صرف یہ نام کا ہی بادشاہ تھا اصل اختیارات باغیوں کے پاس تھے مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکا اور 28 جولائی 1808 کو مصطفیٰ چہارم کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا اور یہی نہیں بلکہ 16 نومبر 1808 کو نئے سلطان کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔
محمود ثانی (1808-1839)
سلطان محمود ثانی 28 جولائی 1808 کو سلطنت عثمانیہ کے تیسویں سلطان کے طور پر تخت نشین ہوا ۔ سلطان محمود ثانی 20 جولائی 1785 کو استنبول میں سلطان عبد الحمید اول کے ہاں پیدا ہوا۔
محمود ثانی کا تخت نشین ہونا ایک بغاوت کے باعث ممکن ہوا جس میں برطرفی سلطان سلیم ثالث قتل ہوا ۔باغی سلطان سلیم ثالث کو دوبارہ سلطان کے طور پر بحال کرنا چاہتے تھے مگر مصطفیٰ چہارم کے دستے نے اسے قتل کر دیا مگر باغیوں نے جلد ہی سلطان کے دستے کو شکست دے دی اور اس طرح سلطان محمود ثانی تخت کا حقدار ٹھہرا۔
سلطان کے دور میں فوجی اصلاحات پر کافی زور دیا گیا جرمنی سے فوجی ماہرین کو بلوایا گیا تاکہ عثمانی افواج کو جدید طریقے پر منظم کیا جائے جس میں سلطان کو بہت حد تک کامیابی بھی ملی ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ اس دور میں مختلف مقامات پر سلطنت عثمانیہ اپنی گرفت کھو رہی تھی اور سرحدیں سمٹ رہی تھی ۔
روس کے ساتھ جھڑپوں اور جنگوں میں شدت آ چکی تھی اور سلطنت عثمانیہ کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑ رہی تھی ۔
یونان میں تحریک آزادی نے زور پکڑ لیا تھا ۔
یکم جولائی 1839 کو سلطان محمود ثانی کا ٹی بی کے مرض کے باعث انتقال ہو گیا۔
سلطان عبد المجید اول (1839-1861)
سلطان محمود ثانی کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا عبد المجید اول دو جولائی 1839 کو تخت نشین ہوا۔
عبد المجید اول 25 اپریل 1823 کو استنبول میں پیدا ہوا تھا ۔
بادشاہ بننے کے بعد عبدالمجید اول نے اپنے باپ کے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اصلاحات کا کام جاری رکھا اور اس کے ساتھ ساتھ سلطنت کے مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دی ۔
سلطنت میں مختلف حکومتی،انتظامی اور تعلیمی اداروں کا آغاز کیا گیا۔
کرنسی کے نظام کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا اور ترکی لیرا کا اجراء کیا گیا۔
کریمیا کی جنگ جو روس کے خلاف لڑی گئی اس میں سلطنت عثمانیہ کو برطانیہ اور فرانس کی مدد بھی حاصل تھی۔
سلطنت کو بیرونی محاذوں پر شکست کا سامنا بھی تھا مصر ہاتھ سے نکل چکا تھا اور سوڈان اور شام مغربی طاقتوں کی بدولت سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول سے نکلنے بچ گئے تھے۔
25 جون 1861 کو سلطان عبدالمجید اول کا 38 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔اور اس کی موت کی وجہ بھی ٹی بی کا مرض تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں