Featured post

شہر بابل اور اس کی تاریخ

شہر بابل اور اس کی تاریخ 


بابل شہر کا تذکرہ تو  اکثریت نے سن رکھا ہوگا۔
بابل شہر کی بنیاد ایک اندازے کے مطابق تین ہزار قبل مسیح میں موجودہ عراق کے علاقے میں دریائے فرات کے ایک کنارے پر پڑی اور آغاز میں یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اور آہستہ آہستہ یہ گاؤں بڑھتا بڑھتا ایک اہم شہر بن گیا۔ 
اٹھارویں صدی قبل مسیح میں بادشاہ حمورابی کے دور حکومت میں بابل خطے کی ایک اہم طاقت بن گیا۔یاد رہے حمورابی ہی وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے تاریخ میں پہلی بار کار حکومت کے لیے آئین یا قانون بنایا اور اسے تحریری حالت میں محفوظ کیا۔
627 قبل مسیح میں آشور بنی پال کے عہد کے بعد اسیرین سلطنت ٹوٹ گئی۔ اسیرین سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد نبوپلوسر نے بابل کی سلطنت کے دوسرے عہد کی بنیاد رکھی اور جس کا صدر مقام بابل کا شہر ٹھہرا۔ 
605 قبل مسیح میں بخت نصر سلطنت بابل میں تخت نشین ہوا اور اس کا عہد بابل کی تاریخ کا ایک سنہرا دور سمجھا جاتا ہے  یہی وہ دور ہے جب سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع علاقے پر پھیل گئی تھیں۔ 
سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ بابل کے باغات معلقہ بخت نصر نے ہی تعمیر کروائے ۔ 
عہد نامہ قدیم کے مطابق حضرت دانیال نے نوشتہ دیوار کا ترجمہ کر کے بخت نصر کو ہی سنایا تھا۔۔ 
 
562 قبل مسیح میں بخت نصر کے مرنے کے بعد اگلے چھ سالوں میں سلطنت بابل پر 5حکمران آئے۔ 
556قبل مسیح میں نبونیدز تخت نشین ہوا۔ 
نبونیدز کا دور حکومت سلطنت بابل کے اختتام  
یعنی 539 قبل مسیح تک رہا۔۔جب سائرس اعظم نے بابل کو  فتح کیا۔ 
بہت سی روایات کے مطابق بابل شہر بغیر لڑے فتح ہو گیا تھا۔۔ 
ایک تحریر کے مطابق ایرانی بادشاہ کو مردوک نے بابل کو فتح کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔۔ 
سلطنت بابل کا عہد 539 قبل مسیح میں اختتام پزیر ہوا۔۔ 
شہر بابل کے ساتھ اس کی زبردست فصیل کا ذکر بھی سننے میں آتا ہے۔۔ 
حمورابی نے سب سے پہلے شہر کے گرد فصیل تعمیر کروائی تھی۔ 
بخت نصر کے دور میں شہر کے گرد فصیلوں کے تین حلقے تعمیر کروائے گئے  فصیل کی اونچائی 40 فٹ کے لگ بھگ تھی ۔اور ان فصیلوں کے اندر کا رقبہ 200 مربع میل کے لگ بھگ تھا۔۔ 
یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کے مطابق فصیل کی موٹائی اس قدر تھی کہ اس پر رتھوں،یا گھوڑا گاڑیوں کی ریس کروائی جاتی تھی۔۔ 
بخت نصر کے عہد میں شہر میں مردوک کی پوجا کے لیے ایک عالی شان عبادت گاہ بنائی گئی تھی جس کا نام ایساگیلہ تھا۔۔اس عبادت گاہ کی اونچائی 280 فٹ تھی۔ 
ایشتار  دروازہ 
شہر میں داخلے کے دروازے کا نام ایشتار تھا۔اور یہ نیلی ٹائلوں سے مزین تھا اور اس پر شیر،ڈریگن اور بیل کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔انیسویں صدی میں کھدائی کے دوران اس دروازے کے حصے ملے تھے۔ 

ایشتار بابل کی دیوی کا نام تھا جو کہ
 محبت،جنگ،خوبصورتی اور طاقت کی دیوی تصور کی جاتی تھی۔ 
زیگورات۔
میسوپوٹیمیا میں کثیر منزلہ عبادت گاہ کو زیگورات کہا جاتا تھا۔اور بابل میں بھی ایسی ہی عبادت گاہیں بنانے کا رواج تھا۔۔ایساگیلہ اسی کی مثال ہے۔۔اور انھیں کو مختلف مقامات پر بابل کے مینارات کہہ کر پکارا گیا ہے۔۔ 

۔ 



تبصرے