- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
انسانی تاریخ میں بے شمار جنگیں لڑیں گئی ہیں مگر کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے سینے میں محٖفوظ ہو جاتی ہیں۔ایسی ہی ایک جنگ جو کہ اپنے وقت کی عظیم طاقتوں کے درمیان لڑی گئی اور جس کے اثرات بہت دیر تک قائم رہے ۔
جنگ انقرہ جو کہ 20 جولائی 1402 کو سلطنت عثمانیہ اور سلطنت تاتار کے درمیان لڑی گئی۔
سلطنت عثمانیہ کی افواج کی قیادت اس وقت کے سلطان بایزید کے ہاتھوں میں تھی جبکہ تاتاری افواج کی کمان امیر تیمور کے ہاتھ میں تھی۔
بایزید یلدرم نے 15 جون 1389 میں سلطان مراد اول کی کوسوو میں شہادت کے بعد سلطنت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تھی۔وہ ایک نہایت قابل حکمران تھا اور بہترین سپہ سالار بھی ،بہترین حربی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی اسے یلدرم یا تھنڈربولٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
امیر تیمور جو کہ 1369 میں سمرقند میں خراسان کے تخت پر بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑے علاقے پر چھا گیا اس کا لشکر دہشت اور خوف کی علامت بن چکا تھا۔
ان دونوں کے درمیان جنگ کی بہت سے وجوہات تھیں ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ دونوں بادشاہوں کی سلطنت کی سرحدیں ملتی تھیں اور اور دونوں ہی اپنی سلطنت میں اضافہ بھی چاہتے تھے اور یہی سب بڑی وجہ
اس جنگ کی بھی تھی۔
موسم گرما کے آغازکے ساتھ ہی تیمور اپنے لشکر کے ہمراہ انقرہ کی طرف روانہ ہوا اور سب پہلے سیواس نامی شہر پر قبضہ کر لیا ۔تیمور کے لشکر کی تعداد 140000 سے لیکر 200000 تک بتائی جاتی ہے ۔اس کے لشکر میں 32 جنگی ہاتھی بھی موجود تھے۔
جبکہ بایزید کا لشکر 85000 سواروں پر مشتمل تھا بعض روایات کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی جو کہ درست بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ اتنی بڑی سلطنت کا حکمران تیمور سے مقابلے کے لیے اتنی کم تعداد مقابلے پر لانے کی غلطی نہین کر سکتا جبکہ لڑائی بھی جب اس کے اپنے علاقے میں لڑی جا رہی ہو ۔
آخر کار 20 جولائی کا دن آن پہنچا اور جب ان حکمرانوں کے لشکر میں یہ خوفناک جنگ لڑی گئی
اس جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی فوج کو شکست ہوئی اور ان کےتیس ہزار سے زائد سپاہی اس جنگ میں کام آئے اور تیموری سپاہ کا نقصان اس سے کہیں کم تھا۔سلطان بایزد کو گرفتار کر کے قیدی بنا لیا گیا اور اس کا اسی قید کے دوران ایک سال بعد انتقال ہو گیا۔
اردگرد کے بہت سے علاقوں کو فتح کرنےاور انھیں برباد کرنے کے بعد تیمور واپس روانہ ہو گیا۔
مگر جاتے جاتے وہ بایزید کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع کروا گیا اور وہ سب آپس میں تخت و تاج کے لیے لڑنے لگے۔
تیمور کے لوٹ جانے کے بعد سلطنت عثمانیہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو کہ 1403ء سے 1410ء تک 10
سال جاری رہی
اس سے پہلے کے جنگ کے حالات بیان کیے جائیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کیوں یہ دونوں عظیم بادشاہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور جنگ ان کے درمیان ناگزیر ہو چکی تھی۔۔ سب سے پہلا سبب تو ان دونوں بادشاہوں کی سرحدوں کا آپس میں ملنا اور سرحدی جھڑپیں اس جنگ کا باعث بنیں ۔اس کے بعد ان دونوں سلاطین کے درمیان جو خط و کتابت ہوتی رہی اس کی تلخی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں میں ایک دوسرے سے نفرت کس قدر بڑھ چکی تھی۔۔
ان دونوں میں خط و کتابت کی کچھ مثالیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور نے یلدرم کو ایک خط لکھا جس میں اس کا لحجہ قدرے نرم تھا جس میں اس نے یلدرم سے درخواست کی کہ وہ قرا یوسف اور سلطان احمد کی مدد نہ کرے جو کہ تیمور کے دشمن تھے اور یلدرم کے ساتھ معاہدہ کر چکے تھے۔اس وقت تک تیمور کو یلدرم سے کوئی پرخاش نہیں تھی۔مگر یلدرم نے جو جواب دیا وہ بہت نامناسب تھا اور جس کا مفہوم کچھ اس قسم کا تھا۔۔۔
اے خونی کتے تیمور سن لے ترک نہ تو اپنے دوستوں کو پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے دشمن سے جنگ کرنے سے ڈرتے ہیں۔۔اور نہ وہ جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کے عادی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جس پر تیمور نے بھی اس کو سخت زبان میں جواب دیا اور طعنہ دیا۔۔۔
کہ وہ جانتا ہے کہ عثمانی ترک خانہ بدوش ترکمانوں کی نسل سے ہیں اور میں تمھاری اصل کو جانتا ہوں اور میں تمھیں یہ صلاح دیتا ہوں کہ مقابلے پر آنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو مگر تم سے توقع نہیں کہ تم غور کرو کیونکہ ترکمانوں نے آج تک اس صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔بہرحال سوچ لو یہ سن لو کہ اگر تم نے میرے مشورے پر عمل نہیں کیا تو پچھتاؤ گے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھاؤ اور وہی کرو جس میں فائدہ نظر آئے۔۔۔۔۔
جس کے جواب میں یلدرم نے اسے یورپ میں اپنی فتوحات گنوائیں اور کہا کہ اب وہ اسلام کا محافظ ہے اور اس کا باپ بھی شہید ہوا تھا۔۔۔۔۔اس نے ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ ہم مدت سے تمھارے ساتھ جنگ کا ارادہ کر رکھا ہے،اور الحمد اللہ اب وقت قریب آ گیا ہے اور اب تم کود لڑنے نہ آؤ گے تو ہم سلطانیہ میں تمھارا تعاقب کریں گے اور پھر دیکھیں گے فاتح کون ہے اور شکست کس کا مقدر بنتی ہے۔۔۔۔
تیمور نے اس کا کوئی جواب نہ دیا مگر کچھ عرصہ بعد ایک اور خط لکھا جس میں اس نے لکھا کہ اگر یلدرم قرا یوسف اور سلطان احمد کا ساتھ چھوڑ دے تو جنگ ٹل سکتی ہے۔۔۔
یلدرم نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس میں کچھ اس طرح کے الفاظ تھے۔۔۔۔
تم میرے ملک پر چڑھائی کرو گے اور میں بھی یہی چاہتا ہوں اور اگر تم نہ آئے تو تمھاری بیویوں پر تین طلاقیں اور اگر تم آئے اور میں بھاگ کیا تو میری بیویوں پر تین طلاق۔۔۔۔
امیر تیمور اپنے لشکر کو لے کر بایزید سے معرکہ کے لیے روانہ ہو چکا تھا اور سب سے پہلے اسے نے آرمینیا سے داخل ہو کر عثمانی سلطنت کے علاقے سیواس کا محاصرہ کر لیا جس کی حفاظت کے لیے یلدرم کا بڑا بیٹا ارطغرل وہاں موجود تھا اور اس شہر کے قلعے کی دیواریں بھی بہت مضبوط تھیں اور محافظ افواج کی بہادری سے شروع میں تو تیموری لشکر کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی پھر اس نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جس کا جواب شہر والوں کے پاس نہیں تھا اس نے 6 ہزار مزدور لگوا کر قلعے کی بنیادیں کھدوا ڈالیں اور شہتیروں کا سہارا دے کر دیواروں کو گرنے سے روکا اور جب بنیادیں کھد گئیں اور ساتھ میں دیواروں کے ساتھ سرنگیں تیار ہو گئیں تو اس نے شہتیروں کا آگ لگوا دی آگ لگنے کی دیر تھی کے دیواریں سرنگوں میں بیٹھ گئیں اور اب کوئی رکاوٹ تیموری لشکر کے راہ میں حائل نہیں تھی اور یوں یہ شہر فتح ہو گیا کہا جاتا ہے امیر تیمور نے غصے میں 4 ہزار آرمینائی سپاہیوں کو زندہ دفن کروا دیا اور ارطغرل اور اس کا محافظ دستہ مار ڈالا گیا۔یلدرم کو جب معلوم ہوا تو وہ لشکر لے کر روانہ ہوا مگر اس سے پہلے تیمور یہاں سے شام اور مصر کی طرف روانہ ہو گیا ۔
دو سال کے بعد تیمور شام اور مصر کو فتح کرنے کے بعد واپس سیواس آیا تو بایزید اپنا لشکر لے کر اس سے مقابلے کی روانہ ہوا مگر اس سے پہلے ہی تیمور وہاں سے روانہ ہو کر انقرہ کی طرف چلا گیا کیونکہ سیواس کا میدا ن اس کی ایک لاکھ بیس ہزار سوار فوج کے لیے کافی نہیں تھا ۔انقرہ پہنچ کر اس نے شہر کا محاصرہ کر لیا اسے یقین تھا کہ یلدرم محاصرہ کا سن کر پلٹے گا اور شہر کو بچانے ضرور آئے گا اور یہی ہوا یلدرم اطلاع ملتے ہی پلٹا اور انقرہ کی جانب روانہ ہو گیا ۔انقرہ پہنچ کر اس نے تاتاری لشکر کو دیکھا جو کہ میدان کے بہترین حصے پر قابض تھا ۔تیمور نے نہ صرف میدان کے بہتر حصے پر قبضہ کیا تھا بلکہ اس نے یلدرم سے مقابلے کے لیے مناسب تدبیریں بھی کر لیں تھیں۔
یلدرم تیمور سے مقابلے پر ایک کے بعد ایک غلطی کر رہا تھا اور طاقت کے گھمنڈ میں وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔یہاں اس نے ایک اور غلطی کی وہ پوری فوج لے کر شکار کے لیے روانہ ہو گیا اور جس مقام پر شکار طے پایا تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور پانچ ہزار سپاہی پیاس سے مر گئے۔۔۔۔۔۔۔
بایزیدجب لشکر گاہ میں واپس آیا تو وہاں تیمور کا قبضہ تھا اور جس چشمہ سے عثمانی فوج پانی لے سکتی تھی اس پر بھی تیوری لشکر قابض تھا اور انھوں پانی کا رخ بھی پھیر دیا تھا جس سے یلدرم کے لشکر کو بہت کم پانی دستیاب ہو سکتا تھا اور اس وجہ سے بلاتاخیر جنگ ضروری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر 20 جولائی 1402 کو یہ خونی معرکہ شروع ہوایلدرم اور اس کا لشکر بہت بہادری سے لڑا مگر تیمور کی تدبیروں کے آگے یلدرم کی ساری کوششیں بے سود رہیں اور کچھ ہی دیر میں تاتاری غالب آگئے اور یلدرم نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر گرفتار ہوا اسی طرح اس کے شہزادے بھی فرار ہو گئے ایک گرفتار ہوا اور ایک لاپتہ ہو گیا اور تین بھاگ نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یلدرم قیدی کی حیثیت میں تیمور کے سامنے لایا گیا تو تیمور نے عزت کے ساتھ اس کا استقبال کیا اس کے ہاتھ کھلوائے اور اسے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس میں تیمور نےاس سے افسوس کا اظہار کیا اور کہا یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے اورتم نے مجھے انتقام پر مجبور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یہ سب کو معلوم ہے اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی اور تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے لیکن تم سےاور تمھارے آدمیوں کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں ہو گا۔۔۔۔۔اورمطمئن رہو
یلدرم نے غلطی کا اعتراف کر لیا اور آئندہ کے لیے اطاعت کا وعدہ کیا۔۔۔تیمور نے اسے خلعت دی اور اس کے بیٹے کو رہا کر دیا اور شہزادی ڈیسپینا اور اس کی لڑکی کو بھی یلدرم کے پاس بھجوا دیا۔۔۔۔۔
لیکن یہ حالات یلدرم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھےاس نے اضطراب کے عالم میں بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کی اطلاع تیمور کو ہو گئی جس پر اس کی نگرانی سخت کر دی گئی اور جب تاتاری لشکر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تو یلدرم کو بھی ساتھ لے جایا جاتا اور اس کو پالکی میں سفر کروایا جاتا اور اس پالکی پر لوہے کی جالی کا کام تھا جس پر یہ مشہور کر دیا گیا کہ یلدرم کو پنجرے میں رکھا گیا ہے حالانکہ تشہیر سے بچنے کے لیے پالکی میں سفر کروایا جاتا تھا جس پر پردہ ڈلا ہوتا تھا۔۔۔۔
مگر یلدرم پر اس قید کا اتنا برا اثر ہوا تھا کہ وہ صرف 8ماہ بعد انتقال کر گیا۔۔۔۔
اور روایت ہے کہ اس اطلاع پر تیمور جیسے انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔۔۔۔
اس جنگ میں تیمور نے یلدرم کو اپنی زبردست تدبیروں کی وجہ سے بلکل بے بس کر دیا تھا۔۔
یلدرم طاقت کے غرور میں تاتاری لشکر اور اس کے امیر کو اہمیت دینے پر تیار نہیں تھا۔۔
اس جنگ کے حالات دیکھ کر یورپی عیسائی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ یہ وہ یلدرم نہیں تھا جن سے ان کا مقابلہ نائیکو پولس میں ہوا تھا۔۔۔
پنجرے میں بند کرنے والی روایت کو یورپی محقق بھی افسانہ قرار دیتے ہیں۔۔۔ جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں