- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
جلال الدین فیروز شاہ خلجی
کیقباد کے بعد جلال الدین نے اس کے شیر خوار بیٹےکو تخت پر
بٹھا دیا اور کچھ دیر تک اس کے نائب کے طور پر حکومت کرتا رہا اور پھر اس بچے کو
قید خانے میں ڈال دیا۔
کچھ دن بعد اس نے شمش الدین بن کیقباد کو قتل کروا دیا
اور خود کیلو گڑھی میں تخت نشین ہوا۔جلال الدین جب تخت نشین ہوا تو اس کی عمر 70
سال تھی۔
دہلی میں چونکہ بہت سے ایسے امراء تھے جنھوں نے 80 برس تک
ترکوں کی حکومت دیکھی تھی اس لیے وہ خلجیوں کو ناپسند کرتے تھے۔اسی وجہ سے بادشاہ
کو بھی ان کی طرف سے اطمینان نہیں تھا اسی لیے اس نے دہلی میں رہنا خطرے سے خالی
نہ سمجھا اور اس نے کیلو گڑھی میں سکونت اختیار کی اور ان عمارات کی تعمیر کو مکمل
کروایا جن کا آغاز کیقباد نے کیا تھا۔یوں پرانی دہلی اجڑ کر نئی دہلی آباد ہوئی۔
جلال الدین کے تین بیٹے تھے بڑے بیٹے اختیار الدین خان
خاناں منجھلے بیٹے کو ارکلی خان اور سب سے چھوٹے بیٹے کو قدر خان کا خطاب دیا۔
انتظام حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد جلال الدین نے اپنے ساتھیوں
کو خطابات اور اعزازت کے ساتھ نوازا ۔
علاؤالدین جو کہ اس کا بھتیجا تھا اس کو اپنے امراء میں
شامل کیا۔ اس نے شاہی تاج کا رنگ بھی سرخ سے بدل کر سفید کر دیا۔یوں کچھ ہی
عرصہ میں وہ اپنے لطف و کرم سے ہر خاص و عام میں مقبول ہو گیا۔اور دہلی کے وہ
امراء جو اس کو ناپسند کرتے تھے وہ بھی اس کے پاس شہر نو میں آگئے۔تب جلال الدین
قدیم دہلی کی طرف روانہ ہوا اور دہلی کے قدیم تخت شاہی پر بیٹھا۔جلال الدین کی
دہلی آمد پر ایک جشن عظیم منایا گیا اور اس موقعہ پر جلال الدین نے اپنی ایک بیٹی
کو الماس خان الغ خان سے بیاہا اور دوسری کو علاؤالدین خلجی سے۔
کہا جاتا ہے کہ جلال الدین خوش اخلاق ،نیک طبیعت اور
پسندیدہ عادات کا مالک تھا۔قدر شناسی میں بادشاہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔بادشاہ
کے دربار میں اپنے زمانے کے بہترین عالم موجود رہتے تھے جن میں شاعری،تاریخ کے
بہترین استاد بھی شامل تھے۔امیر خسرو بھی جلال الدین کے دربار سے وابستہ تھے
بادشاہ امیر خسرو کا بڑا قدردان تھا۔سلطان کی بردباری اور رحم دلی کا یہ حال ہو
گیا تھا کہ وہ اپنے دشمنوں اور مجرموں کو بھی معاف کرنے لگ گیا تو اس کے بہت سے
امرء اس کے خلاف سازشیں کرنے لگ پڑے کہ بادشاہ امور سلطنت کے قابل نہیں کیونکہ وہ
بوڑھا ہو گیا ہے اور زیادہ رحم دل ہو گیا ہے ۔اور اسے شطرنج کھیلنے اور شعر سننے
کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔بادشاہ اپنی رعایا اور امراء کسی سے بدی نہیں کرتا تھا
اور نہ ان کو برا کہتا۔وہ کیسا ہی جرم کرتے نہ ان کو بلواتا اور نہ زنجیروں میں
جکڑتا اگر کسی سے زیادہ ناراض ہوتا تو اس کو اپنے منجھلے بیٹے جو کہ سخت طبیعت کا
مالک تھا کا خوف دلاتا۔کسی سے ناراض ہو کر اس کا عہدہ یا اس کی جاگیریں واپس نہیں
لیتا وہ کہتا تھا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ پہلے کسی کو جاگیر دوں پھر واپس لے لوں۔
جلال الدین خلجی کو سات سال سے زائد عرصہ حکومت کرنے کے بعد
علاؤالدین خلجی نے ایک سازش کے
تحت قتل کروا دیا۔
ہجری میں جلال الدین تخت نشین
ہوا۔ *688٭
جلال الدین خلجی کے تخت نشیں ہونے کے دوسرے سال ملک چھجو جو
کہ غیاث الدین بلبن کا بھتیجا تھا نے سلطان مغیث الدین کا لقب اختیاف کر کے اودھ
میں اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔اور وہ ایک بڑا لشکر لے کر دہلی کی طرف روانہ
ہوا جلال الدین کو اس کی خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے ارکلی خان کی قیادت میں ایک
لشکر مقابلے کے لیے روانہ کیا۔اس جنگ میں ملا چھجو کو شکست ہوئی اور اس کے بہت سے
امراء قیدی بنا لیے گئےجنھیں جلال الدین نے معاف کر دیا۔ملیک چھجو فرار ہونے کے
بعد گرفتار ہوا۔جسے جلال الدین نے ملتان بھجوا دیا اور وہاں کے حاکم کو ملک چھجو
اور اس کے اہل خانہ کے لیے ایک عمدہ مکان اور اس کی خاطر داری اور شاہانہ گزر بسر
کا انتظام کیا جائے۔
ملک چھجو سے نمٹنے کے بعد جلال الدین بدایوں سے دہلی کوچ کر
گیا۔دہلی پہنچ کر اس نے کرہ کی حکومت اپنے بھتیجے علاؤالدین کے سپرد کی۔
بادشاہ کے دور میں سیدی مولہ جو کہ ایک فقیر اور درویش تھے
اور حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کی صحبت سے فیضیاب ہو چکے تھے کہ قتل کا
واقعہ پیش آیا۔سیدی مولہ قاضی تاج الدین کی باتوں میں آکر حکمرانی کے خواہشمند ہو
چکے تھے اور بادشاہ کے قتل کا منصوبہ بنا چکے تھے۔بادشاہ پر جب یہ سازش آشکار ہوئی
تو اس نے سب کو گرفتار کر لیا۔دربار میں بادشاہ درویشوں کی ایک جماعت بھی موجود
تھی جو کہ بادشاہ کی احسان مند اس میں سے ایک درویش نے سیدی مولہ پر حملہ کر دیا
اور ان کو زخمی کر دیا جلال الدین سید مولہ کے قتل کا حکم دیتے ہچکچاہٹ کا
شکار تھا مگر اس کے بیٹے ارکلی خان کے حکم پر ان کو ہاتھی سےکچل دیا گیا۔
٭690 ہجری میں دہلی سخت قحط پڑا ۔اسی سال بادشاہ کا بڑا بیٹا بیمار ہو کر مر
گیا۔
٭691ہجری میں مالوہ میں بغاوت ہوئی
جس کو رفع کرنے کے لیے جلال الدین لشکر لے کر روانہ ہوا اور مالوہ پر قبضہ کر لیا
اس کے بعد اس نے رتھنبور پر حملہ کیا وہاں کا راجہ قلعہ بند ہو گیا ۔جب جلال الدین
نے دیکھا کہ محاصرہ توڑنے میں ہزاروں سپاہیوں کی جان جا سکتی ہے تو وہ یہ کہہ کر
واپس آگیا کہ میں اپنے نام اور حکومت کے لیے ہزاروں مسلمان نہیں مروانا چاہتا۔
٭692ہجری میں ایک لاکھ گھڑ سواروں
کے ساتھ مغلوں نے پنجاب پر حملہ کیا جلال الدین کے لشکر نے انھیں شکست دی اور
ہزاروں مغل قیدی بنا لیے جن کم بعد میں جلال الدین نے امان دینےکے ساتھ ساتھ جانے
کی بھی اجازت دے دی۔
٭693ہجری میں علاؤالدین نے جلال
الدین کی ابازت سے کڑہ کا سفر کیا
٭694ہجری میں علاؤالدین رام دیو کو
شکست دے کر دیو گڑھ فتح کیا۔
٭695ہجری 1296ء میں علاؤالدین نے ایک سازش کے تحت جلال الدین
کو کڑہ بلوایا اور جلال الدین دیو گڑھ کے انمول خزانے کی لالچ میں وہاں پہنچ گیا
۔علاؤالدین بڑے ادب کے ساتھ اس سے ملا اور جب جلال الدین اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی
کشتی کی طرف چلنے لگا تو علاؤالدین کے اشارے پر اس کو قتل کر دیا گیا۔
اور اس کا سر نیزے پر چڑھا کر پورے شہر میں پھرایا گیا۔
جلال الدین کے قاتلوں کا انجام عبرتناک انداز میں ہوا،جس
شخص نے پہلا وار کیا تھا وہ کچھ ماہ بعد جذام کا شکار ہو کر مرا ،جس نے سر
کاٹ کر نیزے پر لٹکایا تھا وہ دیوانہ ہو گیا اور چلاتا پھرتا تھا کہ جلال الدین
اسے قتل کرنے آرہا ہے ۔جو بھی لوگ اس سازش میں شریک تھے وہ سب علاؤالدین کے دور
میں اپنے انجام تک پہنچے اور علاؤالدین اور اس کے خاندان کا انجام بھی بہت عبرتناک
ہوا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں