Featured post

سلطان غیاث الدین تغلق Ghiyath al-Din Tughluq

خاندان تغلق ۔ 

سلطان غیاث الدین تغلق 




غازی ملک امیر دیبال پور نے خسرو خان سے تنگ آکر اور اس سے قطب شاہ کی موت کا بدلہ لینے کی غرض سے ایک لشکر لے کر دہلی کی طرف روانہ ہوا خسرو خان کو اس معرکے میں شکست ہوئی اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔خسرو خان نے پانچ ماہ حکومت کی ۔ 
خسرو خان کو شکست دینے کے بعد شہر کے امراء اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شہر کی چابیاں اس کے حوالے کردیں جس پر غازی ملک نے روتے ہوئے ان سے کہا کہ میں نے اپنے آقا کی موت کا سب نمک حراموں سے بدلہ لے لیا ہے اب اگر  شاہی خاندان کا کوئی جانشیں ہے تو اسے تخت پر بٹھا دیں اور اگر ان میں سے کوئی موجود نہیں تو آپ جسے چاہتے ہیں اس تخت پر بٹھا دیں میں اس کی اطاعت کروں گا ۔تو سب امراء نے اس سے درخواست کی کہ وہی اسی تخت کے لائق ہےاور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تخت پر بٹھا دیا۔اور اسے غیاث الدین کے نام سے بادشاہ مان لیا۔ 
    غیاث الدین تغلق کا باپ ملک سلطان     ، غیاث الدین بلبن کاترکی غلام تھا جس نے ہندوستان کی جاٹ قوم کی لڑکی سے نکاح کر لیا تھا جس سے غازی ملک پیدا ہوا اور سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے حکومت کی ۔تغلق لفظ کے متعلق روایت ہے کہ یہ ترکی لفظ قتلغ تھا جسے ہندوستانیوں نے کثرت استعمال سے تغلق کر دیا اور بعض لوگ اس قتلو کے تلفظ کے ساتھ بھی ادا کرتے تھے۔ 
      
 غیاث الدین تغلق اپنے آقا کے تمام قاتلوں کو قتل کرنے کے بعد تخت نشین ہوا تھا ۔سلطنت ہند کا پچھلے کچھ عرصہ سے اندرونی ریشہ دانیوں کی وجہ سےبرا حال تھا۔غیاث الدین نےاپنی خوش انتظامی اور بہتر حکمت عملی سے اس میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دی اور عوام کے دلوں میں بھی اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔غیاث الدین تغلق ایک خدا ترس اور نیک انسان تھا اور مذہبی قوانین پر کاربند بھی۔ 
بادشاہ کے پانچ بیٹے تھے جنہیں اس نے خطابات اور اعزازات سے نوازا ۔اپنے بڑے بیٹے ملک فخر الدین جونا کو اس نے ولی عہد مقرر کیا  اور الغ خان کا خطاب دیا۔اور باقی بیٹوں کو بہرام خان،ظفر خان،محمود خان اور نصرت خان کے خطابات دیے۔غیاث الدین نے عہدوں کی تقسیم میں ذاتی قابلیت کا خاص خیال رکھتا تھا ۔ 
غیاث الدین نے تخت نشین ہونے کے بعد مغلوں کے حملوں کا خاص سدباب کیا یہی وجہ تھی کہ اس کے دور حکومت میں مغلوں نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔اس کو شراب نوشی سے نفرت تھی اور اسی وجہ سے ملک میں شراب نوشی کی ممانعت تھی 
اامیر خسرو نے تغلق نامہ کے نام سے اس کی تاریخ لکھی تھی۔ 
اس نے عوام کی مکمل تسلی کے کیے سلطنت کے معاملات کو باقائدہ بنایا۔قوانیں میں اصلاحات کیں ،تجارت کی حوصلہ افزائی کی،عالم فاضل اشخاص کی سرپرستی کی اور سرکاری عمارات تعمیر کروائیں۔اس نے دہلی میں ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام تغلق آباد رکھا۔ 
اس نے مغربی سرحدوں کو مضبوط کرنے کے لیے نئے قلعے تعمیر کروائے اور کابل کی سرحد پر چھاؤنیاں قائم کیں۔ 
یک مہم سے واپسی پر کمرے کی چھت گرنے کی وجہ سے غیاث الدین تغلق کا انتقال ہو گیا  ۔اس نے 4 سال اور کچھ ماہ حکومت کی ۔ 
اس کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمد شاہ تغلق تخت نشین ہوا۔ 
غیاث الدین  720 ہجری میں تخت نشین ہوا۔ 
غیاث الدین تغلق کے تخت نشین ہونے کے دوسرے سال ہی حاکم ورنگل لدردیو نے خراج دینے سے انکار کر دیاتھا اور اس کے ساتھ ساتھ دکن میں بھی کافی ابتری کے حالات پیدا ہو گئےان  حالات میں بادشاہ نے الغ خان کو  تلنگانہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ کیا ۔کئی جھڑپوں  اور خونریز لڑائیوں کے بعد  لدردیو کو مجبور ہو کر قلعہ ورنگل میں  پناہ لینا پڑی  محاصرے اور قلعہ میں نقب زنی  سے تنگ آکر لدردیو نے الغ خان سے معافی کا مطالبہ کیا اور اس کی خدمت میں بیش بہا تحائف بھیجے مگر الغ خان نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور محاصرے اور قلعہ کی فتح پر زور دیا   ۔محاصرے کے عرصہ میں زیادتی کے ساتھ  موسم میں تبدیلی کی وجہ سے شاہی فوج میں وباء پھیل گئی اور بہت سے سپاہی اس کی نذر ہوگئے۔اسی دوران  لشکر میں بادشاہ کی موت کی جھوٹی افواہ بھی پھیل  گئی  جو کہ لشکر میں ابتری کا  باعث بنی  اور بہت سے سردار فرار ہو گئے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہندؤوں نے حملہ کیا  اور بہت سے لوگ قتل ہوئے  ۔دہلی سے اس بادشاہ کے زندہ ہونے کی اطلاع  آنےکے بعد الغ خان نے اپنا باقی  بچا ہوا لشکر اکٹھا کیا  جو کہ بمشکل دو تین ہزار پر مشتمل تھا واپس دہلی آگیا۔ 
الغ خان نے چار مہینے کے بعد ایک مرتبہ پھر لشکر لے کر تلنگانہ کی مہم پر روانہ ہوا۔اس بار وہ راستے میں آتے ہوئے تمام قلعے فتح کرتا ہوا  اور ان کا انتظام اپنے امراء کے حوالے کرتا ہوا آگے بڑھا اور بہت کم مدت میں اس نے ورنگل کا  قلعہ فتح کر لیا ۔اس معرکے میں لدردیو اس کی بیوی اور  اس کے بیٹوں کو گرفتار کر لیا گیا اور دہلی بھجوا دیا گیا اور تلنگانہ کا   نام بدل کر سلطان پور رکھ دیا اور اسے اپنے قابل امراء کے حوالے کر کے خود  روانہ ہوگیا۔ 
٭724 ہجری میں لکھنؤتی اور سنار  گاؤں  میں حالات کی خرابی کی خبر پا کر سلطان  غیاث الدین تغلق نے الغ خان کو دہلی میں اپنا نائب  مقرر کیا اور خود لشکر لے لر مشرقی ہندوستان کی طرف روانہ ہوا ۔لکھنؤتئ میں  سلطان غیاث الدین بلبن کا بیٹا  ناصر الدین  حکمران تھاجس نے بادشاہ سے مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے امان طلب کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔سنار گاؤں کی حکومت اپنے منہ مولے بیٹے تاتار خان کے حوالے کی ۔لکھنؤتی کی حکمرانی ناصرالدین کے پاس ہی رہنے دی اور  سنار گاؤں کی حفاظت کی ذمہ داری اور بنگال کی حکومت بھی ناصرالدین کے حوالے  کرنےکے بعد بادشاہ واپسی کے لیے روانہ ہوا۔سنار گاؤں سے مراد ڈھاکہ ہے۔ 
واپسی کے سفر میں بادشاہ کا گزر  ترہٹ کے علاقے سے ہویہاں کا راجہ جنگل میں چھپ گیا۔بادشاہ نے بھی جنگل میں اس کا تعاقب شروع کر دیا اور تعاقب میں جنگل کے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کا صفایا ہو گیاتین دن کی مسافت کے بعد بادشاہ ترہٹ پہنچا تو وہاں قلعے کے گرد پانی سے بھری ہوئی سات خندقیں  تھیںاور قلعہ کو جانے والا راستہ نہایت  باریک اور تنگ تھا اس کے باوجود  بادشاہ نے یہ قلعہ 2 سے 3 ہفتے میں فتح کر لیا۔یہ  واقعات724 سے 725 ہجری کے ہیں۔(1324ء/1325ء) 
بادشاہ کے آنے کی خبر سن کر  اس  الغ خان نے افغان پور  کے پاس ایک نیا محل  بنوایا جو کہ صرف 3 دن کے عرصے میں تیار کیا گیا۔غیاث الدین نے بیٹے کا دل رکھنے کے لیے اس محل میں قیام کیا۔الغ خان اور امراء نے مل کر بادشاہ کے ساتھ کھانا کھایا ۔کھانا کھانے کے  بعد الغ خان گھوڑوں ،ہاتھیوں اور دوسرے شاہی لوازمات کی ترتیب کے لیے باہر چلا آیا جنہیں وہ بادشاہ کی خوشنودی کے لیے لایا تھااس کے باہر آتے ہی اس کمرے کی چھت گڑ پڑی ۔جس میں بادشاہ کی وفات ہو گئی۔بعض  مؤرخین بادشاہ کی موت کا ذمہ دار الغ خان کو قرار دیتے ہیں اور بعض کے موقف کے مطابق  نئی  چھت ہاتھیوں کے دوڑنے کی  دھمک کی وجہ سے منہدم ہو گئی تھی۔ 
بادشاہ کی وفات کا واقعہ 725 ہجری   کا ہے۔(فروری 1325) 

بادشاہ کی وفات کے ساتھ ایک اور  واقعہ بھی  مشہور ہے  کہ حضرت  شیخ نظام الدین ؒ سے بادشاہ کسی وجہ سے ناراض تھا اس نے شیخ کے پاس پیغام پہنچایا کہ میں دہلی آ رہا  ہوں  آپ دہلی سے باہر چلے جائیے تو اس پر شیخ نے فرمایا ہنوز دلی دور است جو اب بھی ضرب المثل ہے۔مگر ابن بطوطہ کے بیان  کے مطابق  حضرت شیخ نظام الدین ؒ کا  انتقال اس واقعے سے پہلے ہو چکا تھا۔ 
   

تبصرے