تذکرہ صحابہ کرام
سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف ،آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام ہالہ بنت وہیب بنت عبد مناف تھا جو رسول کریم ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ والدہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی تھے۔آپ رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں۔رسول کریم ﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ کو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺسے چار برس بڑے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ دو برس بڑے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عمارہ تھی۔آپ رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھیں۔بیٹوں کے نام یعلی ،عامر اور عمارہ جبکہ بیٹی کا نام امامہ رضی اللہ عنہا تھا۔
روایت ہے کہ ابو جہل ایک دن رسول کریم ﷺ کے سامنے آیا اور آپ ﷺ کو تکلیف دی آپ ﷺ خاموش رہے اس کے بعد ابوجہل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کعبہ کے پاس جا کربیٹھ گیا یہ سارا واقعہ ایک لونڈی نے دیکھا اسی دوران حضرت حمزہ رضی اللہ شکار سے واپس آ رہے تھے ان کی عادت تھی جب بھی شکار سے واپس آتے سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے پھر کوئی اور کام کرتے چنانچہ وہ کعبہ کی طرف جارہے تھے تو ان کا سامنا اس لونڈی سے ہوا اس نے ان سے کہا کاش تم اپنے بھتیجے کی مصیبت دیکھتے جو ان کا ابھی ابوالحکم سے پہنچی ہے ابو جہل نے ان کو ستایا ہے اور نامناسب باتیں کی ہیں اور محمد ﷺ نے اسے کچھ نہیں کہا۔یہ سننا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ آ گیا اور وہ سیدھا ادھر گئے جہاں ابوجہل موجود تھا اور اس کے سر پر کمان مار کر سر پھاڑ دیا جس پر ابوجہل کے حمایتیوں نے آپ کو بے دین ہونے کا کہا جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلمان ہونے اعلان کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے ایمان لانے کا واقعہ رسول کریم ﷺکی بعثت کے دوسرےسال کا ہے۔آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو ایک نئی قوت اور طاقت حاصل ہوئی تھی۔بعض روایات میں آپ کے ایمان لانے کا واقعہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے چھٹے سال کا بیان کیا جاتا ہے۔۔
آپ رضی اللہ عنہ نے دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مدینے کی طرف ہجرت کی۔
رسول کریم ﷺ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے درمیان عقد مواخات کروایا۔
روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سب سے پہلے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے ہی جھنڈا باندھا اور تیس سواروں کے ہمراہ سریے پر روانہ کیا۔
غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ دونوں ہاتھوں میں تلواروں کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے سامنے کفار سے لڑ رہےتھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ جنگ میں شتر مرغ کا پر لگا کر شامل ہوتے اور اسی سے پہچانے جاتے تھے۔بدر کے قیدیوں نے مسلمانوں سے دریافت کیا کہ وہ کون تھا جو شترمرغ کا پر لگائے ہوئے تھا تو لوگوں نے جواب دیا وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے تو قیدیو ں نے کہا انہوں نے ہم پر بہت سختیاں کیں۔۔کہا جاتا ہےکہ غزوہ بدر میں آپ کی سخت آزمائش کی گئی انھوں نے شبیہ بن ربیعہ بن عبد شمس کو لڑ کر قتل کیا ،عتبہ بن ربیعہ کو آپ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ نے قتل کیا،آپ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن نوفل کو قتل کیا۔۔۔۔۔
غزوہ احد میں آپ رضی اللہ عنہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں لیے لڑ رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ میں اسداللہ ہوں یعنی اللہ کا شیر ہوں لڑتے لڑتے ان کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے گر پڑے اور اس لمحے وحشی بن حرب نے آپ رضی اللہ کو نیزا مار کر شہید کر دیا ۔اور آپ رضی اللہ عنہ کا سینہ چاک کر کے جگر نکال کر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کے پاس لے گیا جس نے جگر چبا کر نگلنا چاہا مگر نگل نہ سکی پھر وہ آئی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
جب رسول کریم ﷺ کو اس بارے میں علم ہوا کہ ہند جگر کو نگل نہیں سکی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خدا کو منظور نہیں کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا کوئی جزو آگ میں داخل کرے۔۔
روایت ہے کہ احد کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ کی جائے شہادت پر ان کے پاس کھڑے ہوکر رسول کریم ﷺ نے شدید دکھ اور غم کی کیفیت میں فرمایا کہ
تم پر اللہ کی رحمت ہو ،تم ایسے تھے کہ معلوم نہیں
کہ ایسا صلہ رحم کرنے والا،خیرات دینے والا کوئی اور ہو اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمھارے بعد لوگوں کو رنج ہوگا تو میں یہ پسند کرتا کہ تمھیں بغیر کفن دفن کے چھوڑ دوں اللہ مختلف جانوں سے تمھارا حشر کرے بے شک مجھ پر لازم ہے کہ میں ان میں سے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں۔۔۔
اس وقت سورۃ نحل کی آخری آیات نازل ہوئیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمھارے ساتھ برا سلوک ہوا ہے اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے نہایت بہتر ہے۔
۔
رسول کریم ﷺ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔تدفین کے وقت آپ کو جس چادر سے کفن دیا گیا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ پاؤں ڈھکتے تو سر ننگا ہوجاتا اور سر ڈھکنے سے پاؤں۔۔۔تب رسول کریم ﷺ نے فرمایا سر ڈھک کر پاؤں پتوں سے ڈھک دو۔۔
آپ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن حجش ایک ہی قبر ميں دفن کیے گئے۔۔
شہادت کے وقت آپ کی عمر 59 برس بیان کی جاتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ 15 شوال کو شہید ہوئے۔۔
آپ کی قبر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اترے،رسول کریم ﷺ ان کی قبر پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں نے ملائکہ کو دیکھا ہے کہ وہ حمزہ رضی اللہ عنہ کو غسل دے رہے ہیں۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں