Featured post

جزیرہ نما کوریا کا تاریخی خاکہ

جزیرہ نما کوریا کا تاریخی خاکہ  (حصہ 2)
انیسویں صدی کے آغاز میں عالمی طاقتوں کے درمیان سپر پاور ہونے کا ایک مقابلہ جاری تھا ایک طرف برطانوی بحریہ نئے علاقوں پر اپنا قبضہ جما رہی تھی تو دوسری طرف فرانسیسی بحری بیڑے حرکت میں تھے یہی نہیں بلکہ نئی ابھرتی ہوئی طاقت امریکہ کی فوجیں بھی بین الاقوامی پانیوں میں پھیل رہی تھیں ۔ان کے ساتھ ساتھ روسی بحریہ بھی حرکت میں تھی۔
جزیرہ نما کوریا کو بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ان طاقتوں کا سامنا تھا جن کی آمد بظاہر تو کبھی تبلیغی مقاصد یا پھر کاروباری مقاصد کے طور پر ہوتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اس علاقے پر قبضے پر ختم ہوتی تھی۔ان حالات میں کوریا کے پاس محفوظ رہنے کا ایک ہی حل تھا کہ وہ بیرونی سرحدوں کو بند ہی رکھے اور کم سے کم ممالک سے تعلقات رکھے ۔
انیسویں صدی کے وسط تک کوریا کے چین کے علاوہ کسی اور ملک سے روابط نہ ہونے کے برابر ہی تھے۔
انیسویں صدی کے آخر میں کورین فوج کی امریکن اور فرانسیسی بحریہ سے جھڑپوں کا آغاز ہو گیا تھا اور یہی نہیں 1866 میں امریکی فوج کو کوریا پر ایک منظم حملے کا جواز مل گیا جب جنرل شرمن نامی امریکی بحری جہاز پر کوریا کی طرف سے حملہ کرکے اسے جلا دیا گیا ۔اس کے نتیجے میں 1871 میں امریکہ کی طرف سے کوریا پر ایک محدود جنگ بھی مسلط کی گئی۔
انیسویں صدی کے آخر تک جزیرہ نما کوریا اپنی سرحدوں کو مغربی طاقتوں کے لیے مختلف معاہدوں کے تحت کھول چکا تھا جن میں امریکہ 1882,
برطانیہ اور جرمنی 1883
اٹلی اور روس 1884
فرانس 1886
ہنگری اور آسٹریا 1892
اور ڈنمارک سے 1902 میں معاہدہ ہوا۔

یہی نہیں بلکہ جاپان کی برتری کو بھی تسلیم کر چکا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں کوریا باضابطہ طور جاپان کی عملداری میں آ چکا تھا ۔ 
کوریا 1910 میں باقاعدہ طور پر جاپانی کالونی کی حیثیت اختیار کر گیا جس کو ایک گورنر جنرل کے ذریعہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ یہ کورین تاریخ میں پہلا موقع تھا جب مکمل جزیرہ نما کوریا ایک ہی حکومت کی عملداری میں تھا۔
چاپانی دور حکومت کے جابرانہ دور میں کورین سرزمین پر مختلف آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا جن میں کچھ کو مغربی طاقتوں کی سرپرستی حاصل تھی تو کچھ کو روسی کمیونسٹ تحریک کی ۔۔۔
جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے ساتھ ہی کوریا پر جاپانی قبضے کا اختتام ہوا مگر جزیرہ نما کوریا ابھی مکمل آزاد نہیں ہوا تھا کیونکہ اس کے شمالی حصے کا روسی افواج نے اگست 1945 میں کنٹرول سنبھال لیا اور اس کے دیکھا دیکھی اگلے ماہ یعنی ستمبر 1945 میں امریکی افواج ملک کے جنوبی حصے پر قبضہ جما لینے میں کامیاب ہوگئیں ۔۔اور کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کو روسی اور امریکی کنٹرول میں دینے کا پلان بھی امریکہ کا تھا اور منصوبہ یہ تھا کہ اگلے کچھ سال تک یہ علاقہ ایسے ہی رہے اور جب یہاں کے لوگ کسی ایک حکومتی نظام پر متفق ہو جائیں گے تو کوریا کو خودمختاری دے دی جائے گی۔مگر اس منصوبے کی کورین تحریک آزادی کے لیڈروں نے مخالفت کی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کرنے کا مطلب ایک کوریا کی پھر سے غلامی کے مترادف ہوگا ۔
مگر روس اور امریکہ کے درمیان جاری سرد جنگ کے اثرات اس علاقے پر بھی پڑے ،اور یہ دونوں ممالک کوریا کے معاملے پر کسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکے اور یہ معاملہ 1947 میں اقوام متحدہ میں پہنچ گیا اور اقوامِ متحدہ کے فیصلے کے مطابق کوریا میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا مگر روس نے اس فیصلے کی مخالفت کی ۔مئی 1948 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنوبی کوریا میں انتخابات کروائے اور اس کے نتیجے میں جولائی میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور امریکن نواز سنگمن ری اس کے صدر منتخب ہوئے اور ملک کا نام ری پبلک آف کوریا رکھا گیا۔ اس کے کچھ دیر بعد ہی اقوام متحدہ نے جنوبی کوریا کو ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا اور امریکہ کی طرف سے تسلیم کرنے کے بعد 1949 کے اوائل میں امریکی فوج نے جنوبی کوریا سے انخلا شروع کر دیا۔۔
امریکی زیر انتظام جنوبی حصے میں حکومت کے قیام کے بعد شمالی کوریا میں کمیونسٹ نواز حکومت بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اگست 1948 میں شمالی کوریا میں انتخابات کا اعلان کیا گیا اور ستمبر 1948 میں نئی حکومت کا اعلان کیا گیا اور ملک کا نام ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا رکھا ۔اس حکومت کو روس اور چین کی کمیونسٹ حکومتوں کی حمایت حاصل تھی ۔روس اس کو ماننے والا پہلا ملک تھا۔
اس نئی مملکت میں اختیارات جس کمیونسٹ نواز راہنما کے پاس تھے اس کا نام کم ایل سنگ تھا ۔
ان دونوں حکومتوں کا پورے جزیرہ نما کوریا پر حکومت کا دعویٰ تھا۔دونوں ہی کوریا کو متحد کرنے کا عزم رکھتی تھیں مگر نظریاتی اختلاف کی بناء پر یہ بات ناممکن ہوتی چلی گئی۔
اور اسی اختلاف کی وجہ سے شمالی کوریا کے لیڈروں نے جنوبی حصے پر حملہ کر دیا اور یوں 25 جون 1950 کو کوریا کی جنگ چھڑ گئی۔ شمالی کوریا کو اس جنگ میں روس اور چین کی حمایت اور مدد حاصل تھی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جنوبی کوریا کی مدد کی ۔۔۔
کوریا کی یہ جنگ تقریباً تین سال تک جاری رہی اور اس میں اندازاً تین ملین لوگوں کی موت ہوئی ۔27 جولائی 1953 میں ایک امن معاہدے کے تحت اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔
جنوبی کوریا پر 1961 تک سنگمن ری کی حکومت رہی 1961 میں اس کے خلاف احتجاج اور مخالف تحریک شروع ہوئی جس کی وجہ سے سنگمن ری کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور اس کے بعد فوجی حکومت قائم ہوگئی فوجی حکومتوں کا یہ سلسلہ اگلی تین دہائیوں تک جاری رہا اور آخرکار 1994 میں جمہوری نظام اور حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
1964 سے جنوبی کوریا کے بہترین دور کا آغاز ہوا اور جنوبی کوریا ایک زرعی ملک سے ایک صنعتی ملک میں تبدیل ہو گیا ۔
جنوبی کوریا کے برعکس شمالی کوریا پر کمیونسٹ نواز حکومت قائم تھی جسے روس کی بھرپور حمایت حاصل رہی ستر کی دہائی تک شمالی کوریا کا شمار تیزی سے ترقی کرنیوالے علاقوں میں ہوتا تھا ۔پھر آہستہ آہستہ اس کی اقتصادی حالت زوال کا شکار ہوگئی جس کی بڑی وجہ کم ایل سنگ خاندان کا آمرانہ انداز حکومت،سوویت یونین کا ٹوٹنا ،اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی کا نہ ہونا ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ آج شمالی کوریا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی عوام کا معیار زندگی انتہائی کم درجے پر ہے ۔۔۔







تبصرے