Featured post

جزیرہ نما کوریا کا تاریخی خاکہ

کوریا


آج کے دور میں کوریا کا ذکر ایسے ہی ہے جیسے دو بھائی ہوں اور ایک کی مشہوری شریف انسان کی ہو اور دوسرے کی بدمعاش کے طور پر ہو۔

کوریا ایک جزیرہ نما علاقے پر مشتمل ہے جس کے ایک طرف چین اور باقی تین اطراف میں سمندر ہے۔

کوریا کی تاریخ کی بات کی جائے تو یہ پتھر کے دور تک جاتی ہے ۔۔۔

پہلی معلوم سلطنت یا حکومت جو اس علاقے پر قائم ہوئی اسے گوجوسیان کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ تقریباً 2000 قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی اور اسے دانگون نامی بادشاہ نے قائم کیا تھا۔۔ یہ سلطنت یا یہ دور حکومت 100 قبل مسیح کے قریب اپنے اختتام کو پہنچا۔۔


گوجوسیان کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت تین سے چار حصوں میں بٹ گئی تھی اور یہاں نئی سلطنتیں قائم ہو گئیں۔۔ان سلطنتوں کی نام کوگوریو،سیلا اور پائکچے تھے ان تینوں میں سے کوگوریو زیادہ طاقتور اور زیادہ رقبے پر مشتمل تھی جو کہ  آج کے مکمل شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے کچھ حصے پر مشتمل تھی ۔جبکہ باقی سلطنتیں موجودہ جنوبی کوریا کے بقیہ حصوں پر مشتمل تھیں۔

کورین تاریخ میں اس دور کو تین بادشاہتوں کے دور سے جانا جاتا ہے۔


پہلی صدی عیسوی سے لیکر ساتویں صدی عیسوی تک ان تینوں سلطنتوں کے درمیان اپنے اپنے علاقے میں اضافے کی خاطر جنگیں اور جھڑپیں ہوتی رہیں اور ان جنگوں میں جاپان اور چین کی امداد بھی شامل ہوتی تھی خاص طور کوگوریو کے خلاف کیونکہ چین میں اس کو ایک مستقل خطرے کے طور دیکھا جاتا تھا ۔۔اخرکار 668 ء میں سیلا کی سلطنت جس کو چین کی مدد حاصل تھی مکمل کوریا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔۔۔

نویں صدی کے اختتام پر یہ سلطنت کمزور ہونے لگی اور کئی علاقوں نے مرکز کے خلاف بغاوت کر دی اور اس سلسلے کا اختتام 935 ء میں ہوا جب سیلا سلطنت کے آخری بادشاہ کو معزول کر دیا گیا اور اب کوریا کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔۔

935ء میں وانگ کون نامی لیڈر کوریا کا نیا بادشاہ بنا اور اس کے ساتھ ہی کوریا کا نیا نام گوریو رکھ دیا گیا۔۔۔ا

تیرہویں صدی کے آغاز میں اس علاقے کو ایک نئے خطرے کا سامنا تھا اور یہ وہ طوفان تھا جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو برباد کرتا چلا آتا تھا اور یہ طوفان منگول تھے۔۔۔۔۔۔

1215 میں بیجنگ منگولوں کے قبضے میں آگیا تھا یوں اس وقت کا چین اب منگولوں کے کنٹرول میں تھا اور اب اگلی باری کوریا کی تھی۔۔۔اوغدائی خان کی سربراہی میں 1231 میں منگولوں نے کوریا پر حملوں کا آغاز کر دیا۔۔۔

کوریا کے باشندوں نے منگولوں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا اور بہت سے حملوں کے باوجود کوریا ابھی تک منگولوں کے زیر قبضہ نہیں آیا تھا مگر کئی سالوں کی ناکہ بندی اور جنگ اور محاصرے سے مجبور ہو کر کوریا نے منگولوں کی اطاعت کرنے میں عافیت سمجھی اور اور کوریا کے بادشاہ کی حیثیت منگولوں کے کٹھ پُتلی کی تھی۔۔اور پھر یہاں سے ہی منگولوں نے جاپان پر حملوں کا آغاز کردیا۔۔۔

گوریو نامی سلطنت جو کہ منگولوں کے زیر انتظام تھی اس کا خاتمی 1392 میں ہوا .اور جوسان نامی نئی سلطنت قائم ہوئی یہ سلطنت اگلے تقریباً 500 سال تک قائم رہی ۔۔

انیسویں صدی کے اواخر میں کوریا کے اردگرد فرانسیسی اور برطانوی بحریہ کا عمل دخل بہت بڑھ گیا اور کئی جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں۔ دوسری طرف جاپان کا دباؤ تھا جو کہ علاقے کی نئی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا تھا اس صورتحال میں جوسان سلطنت خطروں میں گھری ہوئی تھی رہی سہی کسر 1895 میں چین اور چاپان کے مابین ہوئی جنگ نے نکال دی اس جنگ میں جوسان سلطنت چین کی حامی تھی اور اس جنگ میں چین کو شکست ہو گئی۔۔۔

چونکہ کوریا کی جوسان حکومت پر چین کا بہت عمل دخل تھا اور اس لیے چین کی شکست کے بعد جاپان کی سربراہی میں کوریا کی آزادی کا اعلان کیا گیا اور اس طرح ایک نئی بادشاہ کا قیام عمل میں آیا جسے سلطنت کوریا کا نام دیا گیا یہ اعلان 1897 میں ہوا۔۔۔۔

مگر یہ بادشاہت بھی زیادہ دیر نہیں چل سکی 1910 میں جاپان کے کوریا پر قبضے کے بعد کوریا کی حیثیت جاپان کے زیر انتظام علاقے کی ہوگئی۔۔۔

جنگ عظیم دوم میں جاپان کی شکست کے بعد کوریا کے بھی دو حصے ہو گئے ایک حصہ روس کے حصے میں آیا اور دوسرا حصہ امریکہ کے ۔۔۔

روس کے حصے میں آنے والا کوریا شمالی کوریا تھا کیونکہ اس کا کچھ حصہ روس کے ساتھ لگتا ہے۔۔

جبکہ دوسرا حصہ جسے جنوبی کوریا کہا جاتا ہے امریکہ کے حصے میں آیا۔۔

شمالی کوریا کو چونکہ روس اور چین کی حمایت حاصل تھی اس لیے یہاں کیمونزم کا فروغ ہوا۔۔اور جنوبی کوریا میں امریکی کنٹرول کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کا۔۔۔۔۔

1950 میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ چھڑ گئی مگر وہ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوئی۔۔

ابتدائی دور میں شمالی کوریا کی اقتصادی حالت جنوبی کوریا کی نسبت بہتر تھی مگر آہستہ آہستہ سویت یونین کے زوال اور مغربی ممالک کی پابندیوں کے سبب شمالی کوریا کی اقتصادی حالت بری ہوتی چلی گئی۔۔

جبکہ اس کے مقابلے پر جنوبی کوریا کو چونکہ تمام ممالک کا ساتھ حاصل تھا تو وہاں کی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔

شمالی کوریا کی آزادی سے لیکر اب تک وہاں کم خاندان کی حکومت ہے ۔۔۔۔۔

کورین سرزمین پر بدھ مت کی آمد دوسری صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور تین بادشاہتوں کے دور میں اس میں بہت اضافہ ہوا۔۔

سترویں صدی کے آغاز میں یورپی عیسائیوں کی آمد کے بعد یہاں عیسائیت کا آغاز ہوا۔۔

یہاں کا پرانا عقیدہ کنفیوشزم ہے جو کہ بدھ مت سے قبل یہاں پر تھا اور آج بھی اس کے ماننے والے موجود ہیں ۔۔۔





تبصرے