- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
آیا صوفیہ ترکی زبان کا لفظ ہے جو کہ اصل یونانی نام ہوگیا صوفیہ کا ترجمہ ہے مختلف زبانوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے اور اگر اس کا عام سادہ زبان میں کہیں تو یہ عیسائی عقیدے کے مطابق یہ چرچ holy wisdom
کے ساتھ منسوب کیا گیا۔۔
دنیا میں اور بہت سے ممالک میں اس مناسبت سے چرچ میں موجود ہیں جیسے اٹلی میں
کہا جاتا ہےsanta Sophia
اور بہت سے ممالک میں Saint Sophia
آج کا استنبول اور ماضی کا قسطنطنیہ زمانہ قبل از مسیح سے ہی مختلف تہذیبوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی استنبول میں مختلف تہذیبوں کے آ ثار بکھرے پڑے ہیں ان میں رومن ،یونانی،ایرانی اور بازنطینی قابل ذکر ہیں۔۔
ایک عرصہ تک آیا صوفیہ کو قسطنطنیہ یعنی استنبول کی پہچان اور شان کی علامت سمجھا جاتا رہا تھا ۔۔
آیا صوفیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں پر پہلی تعمیرات قدیم یونانی دور میں ہوئیں جب یہ علاقہ یونان کی ایک کالونی تصور کیا جاتا تھا اور یہاں پر ایک شہرکی بنیاد رکھی گئی اور اس شہر کا مرکز آیا صوفیہ اور اس کے ملحقہ علاقے کو رکھا گیا اور اسی مناسبت سے یہاں عبادت گاہ اور دوسری تعمیرات کی گئیں۔۔اس علاقے میں پہلی عبادت گاہ کی تعمیر کا زمانہ چھ سو قبل مسیح کے قریب کا ہے۔۔
آیا صوفیہ کی جگہ سب سے پہلا چرچ 360 ء میں تعمیر کیا گیا ,اور چرچ کی یہ عمارت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی 404 ء میں مظاہرین کے ہاتھوں یہ یہ چرچ تباہ
ہوگیا۔۔یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ چرچ رومن بادشاہ کانسٹنٹائن نے تعمیر کروایا تھا ۔۔۔
408ء میں ایک بار پھر سے اس چرج کی تعمیر شروع کی گئی اور اور سات سال کے طویل عرصے میں یہ تعمیر مکمل ہوئی اور 415 میں اس چرچ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا,یہ وہ دور تھا جب قسطنطنیہ پر تھیوڈوسس دوم کی حکومت تھی اور اس چرچ کی تعمیر میں بادشاہ کی خاص دلچسپی تھی۔۔
ایک بار پھر اس چرچ کی عمارت کو تباہی سے دوبار ہونا پڑا اور اس بار بھی اس کی وجہ مشتعل عوام ہی تھی اور یہ واقعہ 532 عیسوی میں پیش آیا۔۔۔۔
اس واقعے کے تقریباً دو ماہ بعد ایک بار پھر یہاں چرچ کی تعمیر شروع کی گئی جسے آج دنیا آیا صوفیہ کے نام سے جانتی ہے۔
اس بار یہ تعمیر کروانے والا بازنطینی بادشاہ جسٹینین تھا اور اس چرچ کی تعمیر میں بادشاہ جسٹینین اور اس کی ملکہ تھیوڈورا کی خاص دلچسپی تھی اور وہ ایک ایسی تعمیر چاہتے تھے جو ان کی شان و شوکت کی علامت بھی سمجھے جائے،اس مقصد اور سوچ کے تحت اس نے یہ زمہ دار اینتھیمئیس کے سپرد کی جو کہ اس بادشاہ کا خاص اور بہترین آرکیٹیکٹ تھا۔۔
آخر کار 10000 دس ہزار مزدوروں اور کئی سو ماہرین اور آرٹسٹس اس شاہکار تعمیر کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کی تعمیر میں تقریباً ساڑھے پانچ سال کا عرصہ لگا۔۔
اور یہ دسمبر 537 میں مکمل ہوا۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق جو کہ 1940 میں لگایا گیا اس پر اس وقت 75 ملین ڈالر کی لاگت آئی جس کی ویلیو آج کے تقریباً ایک ارب ڈالر کے قریب خیال کی جاتی ہے ۔۔
اس چرچ کی تعمیر میں سنگ مرمر کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کا بھی استعمال کیا گیا تھا
اپنی تعمیر کے آٹھ سو سال بعد تک اسے دنیاکی سب سے بڑی گنبد نما عمارت کا اعزاز حاصل رہا تھا۔
۔
آیا صوفیہ بنیادی طور پر عیسائیوں کے آرتھوڈوکس فرقے کا چرچ تھا ۔
صلیبی جنگوں کے دور میں یہ چرچ بھی صلیبی حملوں سے محفوظ نہ رہ سکا اور بارہویں صدی کے آغاز میں بونیفاس کی سربراہی میں رومن کیتھولک عیسائیوں کے لشکر جنہیں پوپ کی حمایت حاصل تھی قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا یہ واقعہ 1204ء کا ہےقسطنطنیہ پر فتح کے ساتھ ہی اس چرچ کی حیثیت بھی آرتھوڈکس عیسائیوں کے چرچ سے بدل کر رومن کیتھولک فرقے کے چرچ کی کر دی گئی۔۔
صلیبیوں نے قسطنطنیہ پر فتح کے وقت شہر کو جی بھر کر لوٹنے کے ساتھ ساتھ بے دریغ قتل و غارت کی ۔۔۔
1261ء تک یہ چرچ اور شہر قسطنطنیہ رومن کیتھولک ،عیسائیوں کے قبضے میں رہا ،
1261 میں بازنطینی بادشاہ نے جو قسطنطنیہ کو صلیبی لشکر کو شکست دے کر ایک بار پھر بازنطینی سلطنت میں شامل کر لیا اور یوں ایک بار پھر سے آیا صوفیہ آرتھوڈوکس چرچ کی حیثیت سے بحال ہوگیا۔۔۔
آخر کار 6 اپریل 1453 کو وہ دن آ ہی گیا جس کا دنیا بھرکے مسلمانوں کوشدت سے انتظار تھا سلطان محمد فاتح کی سربراہی میں عثمانی لشکر قسطنطنیہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اسکے ساتھ ہی بازنطینی سلطنت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔۔
قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں بدل دیا اور اس کا نام آیا صوفیہ رکھ دیا۔۔۔
آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے کے بعد اس میں چار مینار تعمیر کیے گئے پہلا مینار سلطان محمد فاتح کے دور میں عمارت کے جنوب مشرقی حصے میں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ باقی تین مینار مشہور زمانہ معمار سنان نے تعمیر کیے۔۔۔ہر مینار کی اونچائی 197 فٹ ہے۔
ان میناروں کی تعمیر سے قبل یہاں عارضی طور پر لکڑی سے بنا مینار تعمیر کیا گیا تھا جسے مینار کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہٹا دیا گیا۔۔
آیا صوفیہ کی حیثیت تقریباً اگلے پانچ سو سال تک مسجد کی ہی رہی پھر انقلاب ترکی کے بعد 1934 میں مصطفٰی کمال اتاترک نے اس کو عجائب گھر میں بدل دیا
فن تعمیر کی اس شاہکار عمارت نے اپنی تعمیر سے پندرہ صدیاں گزرنے تک کئی دور دیکھے یہاں بازنطینی بادشاہوں کی تاج پوشی بھی ہوئی وہیں آرتھوڈوکس عیسائیوں کے مرکزی چرچ کی حیثیت بھی رہی پھر وہ دور بھی آیا جب یہاں رومن کیتھولک فرقے کے عیسائی عبادت کرتے تھے اور یہ پوپ کے کنٹرول میں رہا ۔
اور پھر وہ دور بھی آیا
جب نو سو سال سے جہاں چرچ کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی تھی وہاں پانچ وقت آذان کی آواز سنائی دینے لگی۔۔
ہر عثمانی سلطان کے دور میں آیا صوفیہ میں ضروری تعمیرات مرمت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہا۔
جیسا کہ بایزید دوم اور سلیم دوم کے زمانے میں مدرسے کی عمارت کی تعمیر ،محمود اول کے دور میں ایک سکول کی تعمیر کے ساتھ ساتھ لائیبریری کی تعمیر بھی شامل ہے ۔۔
اس کے علاؤہ سلطان سلیم دوم اور مراد سوم کے مقبرے بھی اس میں تعمیر کیے گئے ۔۔۔
سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہی یہاں خوبصورت خطاطی کے حامل دنیا کے سب سے بڑے پینل آویزاں کیے گئے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں