- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ویسے ڈرامہ دیکھنے کے بعد اکثر لوگوں کو ترکوں اور عثمانی سلطنت کے متعلق کافی معلومات مل ہی چکی ہیں۔
پھر بھی پڑھنے والوں کی دلچسپی اور معلومات کے لیے ترک قوم کے متعلق کچھ روایات بتاتے چلیں۔
ابن خلدون کے مطابق ترک یا ترکمان قوم یافث بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے ہے اور ان کا آبائی علاقہ قسطنطنیہ اور اس کے گرد کا رہا ہے۔
اور بنیادی طور پر یہ خانہ بدوش تھے جو مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا میں گھومتی رہتے تھے اور مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔
جب قتیبہ بن مسلم نے سمرقند فتح کیا تو ترک قبائل میں اسلام کا پیغام پہنچا اور ان میں سے بہت سے مسلمان ہو گئے جبکہ ترکوں کی زیادہ تعداد حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئی ۔
خلیفہ منصور کے دور میں ترکوں کو باقائدہ فوج میں شامل کرنا شروع کیاگیا۔
آہستہ آہستہ ترک قوم ان علاقوں میں طاقتور ہوتی گئی اور ایک وہ وقت آیا کہ جب ترکوں نے پہلی سلطنت کی بنیاد رکھی یعنی سلجوقی سلطنت ۔
ساتویں صدی ہجری میں سلجوقی سلطنت زوال کا شکار ہو چکی تھی اور انکی جگہ سلطنت خوارزم لے چکی تھی مگر اسی دوران وہ دور شروع ہوا جب چنگیز خان کے لشکر منگولیا سے اٹھ کر ان سلطنتوں کو تباہ کرتے چلے جا رہے تھے۔اور مختلف قبیلے بقا کی جنگ لڑنے کی خاطر بچنے کے لیے بھاگتے پھر رہے تھے۔
انھیں قبیلوں میں ایک قبیلہ ترکان اوغوز کا بھی تھا جس کا سربراہ سلیمان شاہ تھا اور یہ قبیلہ خراسان سے نکل کر شام کی طرف چل نکلا۔
اور یہی سلیمان شاہ ارتغرل کا باپ تھا۔ کچھ روایات کے مطابق دریائے فرات میں ڈوب کر سلیمان شاہ کا انتقال ہوا اور ارتغرل قبیلے کا سربراہ بنا۔
اور بقیہ لوگ ارتغرل کی سربراہی میں ایشیا کوچک کی جانب روانہ ہوئے جہاں سلطان علاؤ الدین سلجوقی کی حکومت تھی۔
سلیمان شاہ کا انتقال ایک روایت کی رو سے1230 میں ہوا تھا۔
اور اس قبیلے کی تعداد سو کے لگ بھگ خاندانوں پر مشتمل تھی۔
ارتغرل کی پیدائش کے سال کے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں بحرحال کچھ اندازوں کے مطابق 1195 کے قریب ارتغرل کی پیدائش ہوئی۔
ارتغرل کے عروج کا دور اس وقت شروع ہوا جب علاؤ الدین کی فوج کی مدد کو ارتغرل پہنچا۔بعض روایات کے مطابق یہ مدد اتفاقیہ تھی اور بعض روایات کے مطابق ارتغرل اور اس کے ساتھی باقاعدہ مدد کے لیے نکلے تھے ۔
روایت کے مطابق منگول لشکر جب سلجوقی علاقوں پر حملے کے لیے پہنچا تو علاؤ الدین بھی لشکر لے کر ان کے مقابلے کے لیے نکلا اور ایک ایسے وقت میں جب علاؤ الدین سلجوقی شکست کے قریب منگول لشکر میں گھرا میں ہوا تھا تب ارتغرل مدد کو آیا اور ارتغرل اور اس کے ساتھیوں کا حملہ اس شدت کا تھا کہ منگول لشکر کو بھاگنا پڑا۔اس وقت ارتغرل کے ساتھ 414 سپاہی تھے کچھ کے مطابق یہ تعداد 444 تھی۔۔
اس واقعے کے بارے میں بھی دو قسم کی آراء ہیں ایک تو یہ کہ ارتغرل اور اس کے جوان گزر رہے تھے تو انھوں نے دو لشکروں کو جنگ میں مشغول پایا تو وہ ہمدردی کے تحت کمزور فریق کی مدد کو بڑھے اور اس کی مدد کی یہاں تک وہ کامیاب رہے۔دوسرا یہ کہ انھوں نے مسلمانوں اور بازنطینی عیسائیوں کو لڑتے دیکھا تو وہ مسلمانوں کی مدد کو بڑھے۔غرض شاہی لشکر جو سلجوقی تھا ان کی مدد کی اور ان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔جنگ کا یہ واقعہ انگورا کے قریب پیش آیا۔
علاؤ الدین سلجوقی نے بہادری اور بروقت امداد سے خوش ہو کر سغوت کا علاقہ بطور جاگیر انعام میں دیا۔
یہ علاقہ چونکہ بازنطینی سلطنت کی سرحد پر تھا اس لیے سلطان نے اس علاقے میں موجود اپنی فوج کا نگران بھی ارتغرل کو بنا دیا سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اکثر بازنطینی سپاہ سے جھڑپیں رہتی تھیں جس میں ارتغرل نے اپنی بہادری کا سکہ جمایا۔۔ان واقعات سے اردگرد کے دوسرے ترک قبائل بھی ان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہوگئے۔
1258 میں ارتغرل کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عثمان رکھا گیا۔
بازنطینی سپاہ اور تاتاریوں کے ایک مشترکہ لشکر کو شکست دینے کے صلے میں بروصہ شہر بھی سلطان نے ارتغرل کی جاگیر میں شامل کر دیا ،اور اس ساری سلطنت کو سلطانونی کا نام دیا۔ یوں ایک وسیع جاگیر ارتغرل کی ملکیت میں آ گئی۔
ایک دلچسپ بات یہاں یہ ہے کہ ہلالنشان جو ترکی اور عثمانی سلطنت کی پہچان تھا وہ سلطان علاؤ الدین سلجوقی کے جھنڈے میں تھا اور یہی نشان بعد میں سلطنت عثمانیہ کے جھنڈے میں بھی رہا۔
ارتغرل کی زندگی کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں کیونکہ دوسرے بادشاہوں اور حاکموں کی طرح اس قبیلے میں ابھی پڑھنے لکھنے اور تاریخ لکھنے کا رواج عام نہیں تھا اور ارتغرل اور اس کے بیٹے عثمان کی زندگیوں کا بڑا حصہ اردگرد کے سرداروں سے جنگ کرتے ہی گزرا کیونکہ اپنی نسلوں کو تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے انھیں بقاء کی جنگ لڑنا تھی اور ان کے چاروں طرف دشمن ہی تھے۔
ارتغرل کا انتقال 1280 میں ہوا اور بعض کے نزدیک 1288 میں اور وقت وفات ارتغرل کی عمر نوے سال کے قریب تھی اور سغوت کے علاقے میں تدفین ہوئی۔
ارتغرل کے بعد اس کا بیٹا عثمان سردار بنا اور اسی نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔
کچھ محققین کے مطابق یہ ترک قبائل اس علاقے میں تیرہویں صدی میں نہیں آئے تھے بلکہ یہ 11 صدی میں یہاں آئے تھے جب اناطولیہ میں الپ ارسلان اور بازنطینی لشکر کے درمیان مشہور جنگ لڑی گئی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں