Featured post

سلطان رکن الدین بیبرس

سلطان بیبرس


مملوک سلطنت کا بادشاہ اور کچھ کے نزدیک مملوک سلطنت کا بانی بھی سلطان بیبرس ہی ہے کیونکہ اسی کے دور میں اس سلطنت کو صحیح معنوں میں عروج حاصل ہوا۔۔
اس سے پہلے کہ سلطان بیبرس کا ذکر کیا جائے مملوکوں کے متعلق کچھ معلومات ۔۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور سے مختلف ترک قبائل کے غلاموں کو آرمینیا ترکستان اور ان سے ملحقہ علاقوں سے لایا جا رہا تھا اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کو جنگی فنون سکھائے جا رہے تھے۔۔اور انھیں غلاموں پر مشتمل دستے شاہی محافظوں کا کردار بھی ادا کرتے تھے ۔بہت سے غلام اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کی بناء پر فوج میں اعلی عہدوں پر بھی فائز تھے۔اوریہ بادشاہ کے زیادہ قریب بھی ہوتے تھے ۔۔
ابن خلدون کے مطابق ایوبی سلطنت کے ایک فرمانروا ملک صالح کے دور میں ان غلاموں کا اثر رسوخ بہت بڑھ چکا تھا اور یہ مختلف قلعوں اور چوکیوں کے نگران تھے اور بادشاہ کے خاص محافظ بھی۔۔
 اور مختلف بادشاہوں سے مناسبت اور اپنی تعیناتی کی بناء پر ان کے گروہوں کے نام رکھے گئے تھے جیسے صالح ایوب سے وابستہ گروہ صالحیہ کہلاتا تھا اور ایک گروہ عزیزیہ کہلاتا تھا جو ملک عزیز کے نام کی وجہ سے تھا اور ایک گروہ بحریہ کہلاتا تھا جو کہ ایک قلعہ بحر سے منسلک تھے۔۔
انھیں گروہوں کے ایک سردار کا نام رکن الدین بیبرس بنقداری تھا۔۔۔۔۔۔۔
ملک صالح کی موت کے بعد اس کا بیٹا اور اس کی بیوی کار حکومت چلانے لگے اور یہ وہ دور تھا جب اردگرد ہلاکوخان اور اس کی تاتاری فوجیں وحشت و بربریت کا کھیل کھیل رہی تھیں اور آہستہ آہستہ تمام علاقے ان کے قبضے میں جا رہے تھے۔۔تو ان حالات میں ایک نوعمر بادشاہ اور اس کی ماں کا حکومت سنبھالے رکھنا ان ترک سرداروں نے مناسب نہ سمجھا اور انھیں برطرف کر دیا اور ان کی جگہ مظفر قطز کو تخت پر بٹھایا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بادشاہت مصر کے علاقے میں قائم تھی۔۔
دوسری طرف شام میں فتوحات کے بعد ہلاکو خان کو واپس جانا پڑا اور وہ لشکر کی کمان کبتغا کے ہاتھوں میں دے کر لوٹ گیا۔۔۔۔۔
کبتغا نے مظفر قطز کے پاس قاصد بھیجے اور مصر کے باشندوں کو اطاعت کا پیغام بھجوایا۔۔ بادشاہ نے جواب میں قاصدوں کو قتل کر کے خودجنگ کی تیاری شروع کر دی۔۔
آخرکار 3 ستمبر 1260 کو عین جالوت کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آئے عین جالوت کا مقام موجودہ اسرائیل میں واقع ہے۔۔
بہت سے قصے کہانیوں میں مشہور ہے کہ اس جنگ میں فریقین کی تعداد لاکھوں میں تھی ابن خلدون کے مطابق ہلاکو خان کبتغا کو بارہ ہزار کا لشکر دے کر واپس لوٹ گیا تھا۔۔
ادھر مسلمان لشکر کی تعداد بھی پندرہ ہزار کے قریب تھی۔۔
اس جنگ میں بیبرس اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کا ایسا نمونہ دکھایا کہ۔ تاتاری لشکر بوکھلا گیا اور اس کو شدید ترین نقصان اٹھانا پڑا اور تقریباً تمام تاتاری لشکر مارا گیا اور ان کا سربراہ کبتغا بھی میدان میں قتل ہوا۔۔۔
یہ معرکہ بیبرس کی صلاحیتوں کا ایک نمونہ تھا جس کے سبھی معترف تھے۔۔
اس معرکے کے بعد یہ مسلمان لشکر دمشق کی طرف روانہ ہوا اور وہاں موجود باقی تاتاریوں کا خاتمہ کرنے کے بعد واپس مصر کی طرف لوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔
دمشق سے واپس آتے ہوئے راستے میں ترک سرداروں نے اپنے ایک سردار کے قتل کے بدلے میں مظفر قطز کو قتل کر دیا۔۔۔۔۔
اور کہا جاتا ہے قتل کرنے والا بیبرس تھا تاریخ ابن خلدون کے مطابق تلوار سے وار کرنے والا بیبرس تھا۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد تمام ترک سرداروں نے بیبرس کی بیعت کر لی ۔۔۔
اور یوں بیبرس مملوک سلطنت کا چوتھا بادشاہ بنا۔۔
اس سے پہلے تین بادشاہوں کے نام
عزالدین ایبک
نور الدین علی
سیف الدین المظفر قطز
بیبرس
پہلے تین سلطانوں کا دور حکومت تقریبا دس سال پر محیط ہے۔۔
سلطان رکن الدین الظاہر بیبرس 658 ہجری 1260 عیسوی میں تقریباً 37 سال کی عمر میں تخت نشین ہوا ۔۔
یاد رہے کہ یہ مملوک سلطنت سلطنت ایوبیہ کو ختم کر کے قائم کی گئی تھی۔۔
سلطان رکن الدین الظاہر بیبرس نے تقریباً 17 سال حکومت کی
الظاہر بیبرس 1223 میں قپچاق قبیلے کے ایک گھرانے میں پیدا ہوا ،قپچاق قبیلہ ترک النسل تھے اور یہ بحیرہ اسود کے شمالی علاقے میں آباد تھے جو آج کل ہنگری کی حدود میں واقع ہے۔ 1242 کے قریب اس علاقے پر منگولوں نے حملہ کیا اور واپس لوٹتے ہوئے وہ اس علاقے کے بہت سے جوان اور بچوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے ان نوجوانوں میں بیبرس بھی شامل تھا،اس کے بعد بیبرس کو مصر کے بازار میں فروخت کر دیا گیا اور خریدنے والا کوئی عام۔شخص نہیں تھا بلکہ مصر اور شام کے علاقوں پر مشتمل ایوبی سلطنت کا بادشاہ صالح نجم الدین تھا۔۔
 اس کے بعد بیبرس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا اسوقت کے رواج کے مطابق بیبرس کو فوجی تربیت کے لیے ایک جزیرے پر بھیج دیا گیا جو کہ دریائے نیل کے دامن میں تھا اور اور یہاں کے تربیت یافتہ فوجی بحری کہلاتے تھے۔ دوران تربیت ہی وہاں کے زمہ داران بیبرس کی صلاحیتوں کے معترف ہو چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹریننگ مکمل ہونے کے۔ بعد بیبرس کو سلطان کے ذاتی محافظوں کی کمان سونپ دی گئی تھی۔۔
یہاں بیبرس کی صلاحیتوں کےمتعلق ایک دلچسپ بات بیان کی جاتی ہے کہ بیبرس تیراکی میں اس قدر مہارت رکھتا تھا کہ وہ دریائے نیل کو تیر کر پار کر لیتا تھا۔۔۔
بیبرس کی صلاحیتوں کا پہلا اور خاص امتحان 1250 مییں آیا جب ساتویں صلیبی جنگ کے لیے فرانس کا بادشاہ لوئی نہم لشکر کے ساتھ مصر پر حملے کی غرض سے آیا اور اسی دوران سلطان صالح کی وفات بھی ہو گئی اور ان حالات میں صلیبیوں کو روکنے والے لشکر کا ایک سردار بیبرس بھی تھا اور اس جنگ میں فرانسیسی لشکر کو شکست ہوئی اور ان کا بادشاہ لوئی نہم گرفتار ہوا جسے بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔۔۔۔
  اسی سال سلطنت ایوبیہ کا خاتمہ ہو گیا اور پہلا مملوک سلطان ایبک تخت نشین ہوا اور کچھ ہی دنوں میں نئے بادشاہ سے اختلافات کی وجہ سے بیبرس اور کچھ اور سرداروں کو مصر سے فرار ہونا پڑا۔۔۔۔
1260 میں جب مسلم لشکر کو تاتاری لشکر کا عین جالوت کے مقام پر سامنا تھا اور سلطنت کے امور قطز کے ہاتھوں میں تھے بیبرس اور دوسرے سردار واپس آئے اور تاتاریوں سے فتح کے کچھ ہی دیر بعد قطز کی موت کے بعد کے بیبرس تخت نشین ہوا۔۔۔
تیرہویں صدی میں جہاں مسلم سلطنتوں کو ایک طرف تاتاری لشکروں کا سامنا تھا وہیں دوسری طرف یورپ اور صلیبی لشکر بھی مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے ۔
بیبرس کو بھی اپنی سلطنت پر انھیں خطرات کا سامنا تھا ۔
بیبرس صلاح الدین ایوبی کا پرستار تھا اور ان کی طرح کارنامے سر انجام دینے کی خواہش بھی تھی اور وہ ساتھ یہ بھی چاہتا تھا کہ وہ اس صلیبی خطرے کا اپنی سرزمیں سے خاتمہ کر دے اسی سوچ کے تحت اس نے اپنی جنگی صلاحیتوں کو ایک نئی سوچ اور جدت کے ساتھ بڑھانے کا آغاز کیا ۔۔ مصر اور شام کے علاقوں کو متحد کر کے سلطنت کو مزید مستحکم کیا تاکہ صلیبی اور منگولوں کا بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے۔۔
اگلے کچھ سال بیبرس نے مسلسل عیسائیوں کے مضبوط ٹھکانوں اور قلعوں پر حملہ کیا اور انھیں شام کے علاقوں سے نکال دیا۔۔اور یہ عرصہ 1265 سے 1270 کے درمیان کا ہے۔۔
اس کے علاؤہ ایک منظم طریقے سے کاروائی کرتے ہوئے موجودہ ترقی کے علاقے انطاکیہ جو عیسائیوں کے قبضے میں تھا اسے بھی سلطنت میں شامل کر لیا اس کے ساتھ ساتھ موجودہ اسرائیل کے علاقوں میں بھی جہاں عیسائی قابض تھے وہ بھی ان کے قبضے سے لے لیے۔۔جن میں یافا اور ارسوف شامل تھے یہ علاقے آج کل کے تل ابیب کے پاس ہیں۔۔۔اس کے علاؤہ وہ سب علاقے بھی واپس لے لیے جو صلاح الدین ایوبی کے بعد مسلمانوں کے کمزور ہونے کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔۔
1265 میں ہی بیبرس نے سلطنت آ رمیںیا پر کامیاب حملہ کیا
1271 میں بیبرس نے حشیشین کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور اپنی سلطنت میں موجود ان کے تمام بڑے ٹھکانے تباہ کر دیے اور اور ان حملوں میں اکثریت حشیشین کی ماری گئی اور باقی جان بچا کر بھاگ گئے۔۔
منگولوں اور عیسائیوں سے نبردآزما مملوک سلطنت کو ایک تیسرے دشمن کا بھی خطرہ بڑھتا جا رہا تھا جو کہ موجودہ سوڈان کے مقرہ سلطنت سے تھا اور آخر 1276 میں ایک زوردار اور کامیاب حملے کے نتیجے میں مقرہ سلطنت کے بادشاہ کو شکست ہوئی اور بہت سے علاقے مملوک سلطنت میں شامل ہوئے اس حملے میں بادشاہ بمشکل جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا۔۔۔۔
بیبرس صرف جنگی چالوں کا ہی ماہر نہیں تھا بلکہ وہ ایک بہترین سفارتی ذہن بھی رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اردگرد کی کئی عیسائی سلطنتوں کے ساتھ کامیاب سفارتی تعلقات قائم کیے ان میں بازنطینی سلطنت بھی شامل تھی۔۔اس کے علاؤہ بہت سے علاقوں سے کاروباری معاہدے بھی بیبرس کی فہم و فراست کا نتیجہ تھے۔۔
بیبرس کا ایک اور شاندار کارنامہ قاہرہ اور دمشق کے درمیان ڈاک کی ترسیل کا نظام تھا کہا جاتا ہے کہ اس وقت کوئی بھی خط ایک ہفتے کے اندر قاہرہ سے دمشق پہنچ جاتا تھا۔۔
بیبرس نے اپنے دور حکومت میں بہت سی مساجد اور مدرسے بھی تعمیر کروائے۔۔
سلطنت میں قلعوں اور چوکیوں کا ایک مربوط اور جدید نظام۔قائم کیا۔۔
بیبرس نے ایسے قاضی نامزد کیے جو ہر فقہ کے حساب سے فیصلہ کرتے تھے۔۔
مصر میں نہروں کے نظام اور بندرگاہ کو بھی بہتر کروایا گیا۔۔
غرض بیبرس نے جنگی فتوحات کے ساتھ ساتھ عوام کی بہبود کے لیے بہت کام کیا اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جس سے عوام اور سلطنت کا فائدہ ہو۔۔۔
آخر کار یکم جولائی 1277 کو اس قابل جرنیل اور بادشاہ کی زہر پینے کی وجہ سے وفات ہو گئی اور دمشق میں الظاہریہ لائبریری میں اس بیبرس کی تدفین کی گئی۔
 بیبرس کے حلیے کے متعلق روایت ہے کہ اس کا قد لمبا اور آنکھیں نیلی تھیں اور وہ ایک مضبوط اور طاقتور انسان تھا۔
بیبرس کے بعد اس کا بیٹا محمد برکہ تخت نشین ہوا جو کہ صرف دو سال حکومت کر سکا اس کے بعد اس کے چھوٹے سات سالہ بھائی کو تخت پر بٹھایا گیا جسے تین ماہ بعد ہی بیبرس کے ایک طاقتور امیر نے ملک بدر کر دیا اور خود سلطنت مملوک کا سلطان بن گیا اس امیر کا نام قلاوون تھا۔۔۔۔۔۔۔۔




تبصرے