- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت ابوذر غفاری کا نام جندب بن جنادہ تھا اور ابوذر غفاری ان کی کنیت تھی۔آپ کا تعلق بنو غفار سے تھا اور آپ کی والدہ کا نام رملہ تھا ان کا تعلق بھی بنو غفار سے تھا۔حضرت ابوذر کا شمار بہت فاضل صحابہ میں ہوتا ہے ،اور آپ اسلام لانے والے پانچویں شخص تھے۔اسلام لانے کے بعد آپ واپس اپنے قبیلے میں چلے گئے تھے۔
آپ کے اسلام لانے کا واقعہ جو روایتوں میں آتا ہے رہ اس طرح ہے کہ جب آپ کو رسول کریم ﷺ کی بعثت کا علم ہوا تو آپ نے اپنے بھائی کو کہا کہ اونٹنی پر سوار ہو کر جاؤ اور وادی حجاز میں اس شخص کے حالات و واقعات معلوم کر کے آؤ جو نبوت کا دعوی کرتا ہے،اور کہتا ہے کہ مجھے پر آسمان سے وہی اترتی ہے ان کی باتیں سن کر آؤ اور مجھے بتاؤ۔۔چنانچہ آپ کے بھائی مکہ آئے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور رسول کریم ﷺکی باتیں سنیں اور واپس آپ کے پاس آ کر بتایا کہ مدی نبوت مکارم اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا کلا شعر ہیں ہے۔۔لیکن اس پر آپ کی تسلی نہیں ہوئی تب آپ خود مکہ کی جانب چل دیے۔۔
مسجد الحرام ميں آپ ﷺکی تلاش میں آئے آپ رسول کریم ﷺ کو نہیں جانتے تھے اور آپ نےکسی سے پوچھنا بھی مناسب نہ خیال کیا رات کا کچھ حصہ گزر گیا اور آپ وہیں لیٹ گئے کچھ دیر کے بعد حضرت علی رضی اللہ کا وہاں سے گزر ہوا انھوں نے ابوذر کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے حضرت ابوذر حضرت علی رضی اللہ کو دیکھا تو ان کے پیچھے چل دیے مگر صبح تک آپ دونوں نے اک دوسرے سے بات نہ کی تب حضرت ابوذر واپس مسجد الحرام آگئے۔مگر آپ کو رسول کریم ﷺکی زیارت نصیب نہ ہوئی اور دوسری رات آگئی تب پھر حضرت علی رضی اللہ کا گزر وہاں سے ہوا حضرت ابوذر ایک بار پھر حضرت علی رضی اللہ کو دیکھ کر ان کے پیچھ چل پڑے مگر دونوں میں پھر کوئی باب نہیں ہوئی۔اس طرح تیسرا دن بھی گزر گیا رات کو حضرت علی رضی اللہ نے ان سے دریافت کیا کہ وہ یہاں کیوں آۓ ہیں تب حضرت ابوذر غفاری نے کہا کہ اس شرط پر بتاؤں گا کہ آپ میری راہنمائی کریں گے تب حضرت علی رضی اللہ نے رسول کریم ﷺکے متعلق معلومات انھیں دیں اور کہا کہ آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں۔اور اگلی صبح حضرت علی رضی اللہ آپ کو رسول کریم ﷺکی خدمت میں لے گئے۔جہاں رسول کریم ﷺنے آپ کو اسلام کا پیغام دیا اور آپ مسلمان ہوگئے۔رسول کریم ﷺنے انھیں واپس جانے کا اور اپنے قبیلے میں تبلیغ کاارشاد فرمایا اور فرمایا جب میں بلاؤں تو واپس آجانا۔۔حضرت ابوذر رضی اللہ نے کہ کہ یا رسول اللہﷺ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں مشرکوں کے سامنے اپنے ایمان کا اعلان ضرور کروں گا۔
چنانچہ آپ نے کعبہ میں جا کر بلندآواز میں کلمہ شہادت پڑھا یہ سن کر مشرکین آپ پر ٹوٹ پڑے اور آپ زمین پر گر گئے یہ دیکھ کر حضرت عباس آپ پر گر گئے اور کہنے لگے کہ اے قریش کیا تمھیں معلوم نہیں یہ شخص بنو غفار سے ہے اور تمھارے شام جانے والے تجارتی قافلے وہیں سے گزرتے ہیں اس طرح حضرت عباس نے آپ کو مشرکین سے بچایا۔۔دوسرے دن حضرت ابوذر رضی اللہ نے پھر کعبہ میں جا کر کلمہ شہادت پڑھا مشرکین ایک بار پھر آپ پر ٹوٹ پڑے اس بار بھی حضرت عباس نے آپ کو پہلے کی طرح بچایا۔۔جب رسول کریم ﷺ نے مدینے ہجرت کی تو حضرت ابوذر رضی اللہ بھی مدینے تشریف لے آئے۔۔
عبداللہ بن عمر و سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے اپنے اوپر نہیں اٹھایا کسی ایسے شخص کو جو ابوذر سے زیادہ راست گفتار ہو
اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر دنیا میں عسی بن مریم کے زہد پر چل رہے ہیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ کی وفات 32ہجری میں ہوئی
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
وفات کے وقت حضرت ابوذر ربذہ کے علاقے میں تھے اور ان کا گھر ایک ویران جگہ پر تھا اور جب آپ کا وقت وفات قریب آیا تو آپ کی اہلیہ رونے لگیں تو پوچھا کیوں روتی ہو تو انھوں نے کہا کہ مجھے تمھارے لیے کفن کی ضرورت ہوگی اور گھر میں ایسا کوئی کپڑانہیں جسے کفن کے طور پر استعمال کر سکوں،جس پر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ نے کہا کہ پریشان نہ ہو میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے سنا تھا کہ تم میں سے ایک شخص ویران زمین پر مرے گا اور اس کی تجحیز و تکفین مومنین کی ایک جماعت کرے گی پس اس محفل میں موجود تمام لوگ وفات پاچکے ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی ویران جگہ پر انتقال نہیں ہوا پس تم راستے میں جا کر انتظار کرو پس جب وہ راستے میں کھڑے ہوئیں تو کچھ لوگوں کی جماعت وہاں پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کی تجحیز و تکفین کے انتظامات اسی جماعت نے کیے ،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ بھی اسی وقت پہنچے تھے۔
ایک بار رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوذر رضی اللہ کے متعلق فرمایا اللہ ابوذر پر رحم کرے،اکیلا ہی چلا آ رہا ہے اکیلا ہی مرے گا اکیلا ہی اٹھایا جائے گا اور زمانے کو اس کے ہاتھوں ایک ضرب برداشت کرنی پڑے گی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں