- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت زبیر بن العوام حواری رسول ﷺ
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام صفیہ بنت عبدالمطلب تھا ،جو آپ ﷺ کی پھوپھی تھیں اس حوالے سے زبیر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔
آپ رضی اللہ چھوٹی عمر میں ایمان لائے تھے اور آپ اسلام قبول کرنے والے پانچویں یا چھٹے شخص تھے۔اسلام قبول کرتےوقت آپ کی عمر کے متعلق مختلف روایات ہیں کچھ کے مطابق اس وقت آپ کی عمر پندرہ برس تھی ،کچھ کے مطابق اس وقت آپ سولہ برس کے تھے۔جب کہ کچھ کے مطابق آپ اس وقت آٹھ برس کے تھے۔آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پانچ چھ دن بعد ایمان لائے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ ميں ہوتا ہے جنہوں نے حبشہ اور مدینہ دو ہجرتیں کی تھیں۔
آپ رضی اللہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے بعد خلافت کے انتخاب کے لیے جن 6 صحابہ کو نامزد کیا تھا حضرت زبیر ان چھ صحابہ میں شامل تھے۔
رسول کریم ﷺ نے مکہ میں آپ میں اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور مدینہ میں سلمہ بن سلامہ کے درمیان مواخات کروائی تھی۔کچھ روایات میں کعب بن مالک اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے مواخات کا ذکر بھی ملتا ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ تمام غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ رہے اور شجاعت اور بہادری کے نمونے دکھتے رہے۔غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ زرد عمامہ لپیٹے ہوئے تھے اور روایات میں آتا ہے کہ غزوہ بدر کے دن مدد کے لیے جو فرشتے نازل ہوئے تھے وہ بھی زرد عمامے لیے ہوئے تھے۔
فتح مکہ کے دن مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا آپ رضی اللہ کے پاس تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے آپ کے لیے
فداک امی و ابی کے الفاظ استعمال کیے۔غزوہ احزاب کے موقع پر ہی رسول کریم ﷺ نے آپ کے لیے فرمایا ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سےشامل ہوئے اور اسی جنگ میں جب آپ اپنے آپ کو جنگ سے علیحدہ کر چکے تھے ابن جرموز نے آپ رضی اللہ عنہ کو تنہا پا کر شہید کر دیا۔شہادت کے وقت آپ رضی اللہ کی عمر 64برس بیان کی جاتی ہے۔
روایت ہے کہ جب ابن جرموز آپ کو شہید کرنے کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں انعام کی غرض سے حاضر ہونا چاہتا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ملنے سے انکار کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابن صفیہ یعنی حضرت زبیر کے قاتل کو جہنم کی خوشخبری دے دو.
جنگ جمل 10 جمادی الاول 36ہجری میں ہوئی تھی۔
حضرت زبیر رضی اللہ درمیانے قد کے چھدری داڑھی،گندمی رنگ لمبے بالوں والے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا شمارامراء میں ہوتا تھا اور آپ کے ترکے کی قیمت تقریبًا چار سے پانچ کروڑ بیان کی جاتی ہے جس کے متعلق آپ نے وصیت کی تھی کہ کہ سب سے پہلے قرض ادا کا جائے تب باقی مال آپس میں تقسیم کیا جائے چنانچہ اسی لیے قرض کی ادائیگی کے بعد متواتر چار سال تک حج کے موقعہ پر اعلان کیا جاتا رہا کہ اگر کسی کا کوئی قرض ہے تو وصول کر لے اس کے بعد پھر جائیداد تقسیم کی گئی۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں تلوار کھینچنے والے پہلے مسلمان تھے۔
روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم ﷺ ایک بار کوہ حراء پر چڑھے تو وہ وجد میں ہلنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے حراء ٹھہر جا تجھ پر نبی ،صدیق اور شہید کھڑے ہیں۔اس وقت رسول کریم ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ،حضرت زبیر رضی اللہ عنہ،سعد رضی اللہ عنہ اور سعیدبن زید تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں