- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
دنیا کے قدیم ترین شہروں کا ذکر ہو تو ار کے شہر کا تذکرہ کیا بغیر یہ ذکر نامکل ہو گا کیونکہ اسے معلوم دنیا اور تاریخ کے بسائے گئے پہلے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔۔
ار کا شہر وہ شہر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کا شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بہت سی روایات میں موجودہ ترکی کا شہر اورفہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔
یہ شہر موجودہ عراق میں دريائے فرات کے کنارے پر آباد تھا اور موجودہ دور میں دریائے فرات اس شہر سے پندرہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر بہہ رہا ہے۔موجودہ عراق کے جنوبی علاقے تل المقیر جو کہ ناصریہ شہر سے 16 کلومیٹر پر یہ جگہ واقع ہے۔
اس شہر میں آبادی کا آغاز چار ہزار سال قبل مسیح میں ہوا ۔
میسوپوٹیمیا کہلانے والے علاقے میں یہ شہر سمیری سلطنت کا اہم شہر سمجھا جاتا تھا۔
ار شہر اپنے محل وقوع کی وجہ سے دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس کے قریب ہی وہ مقام تھا جہاں دجلہ اور فرات خلیج فارس ميں گرتے تھے۔۔
چند کسانوں کی آبادی کا حامل اور بڑھتا بڑھتا ایک علاقائی مرکز کی حیثیت اختیار کرتا گیا،
2100 قبل مسیح کا دور ار شہر کے عروج کا زمانہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب اس شہر کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔۔
ار شہر پر سمیری سلطنت کا دور تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایک شہر یا علاقے کی اپنی آذادانہ حکومت تھی یہی وجہ ہے کہ اس دور میں موجودہ عراق یا میسوپوٹیمیا میں کئی سلطنتیں قائم تھیں۔
پہلا دور 26 ویں صدی قبل مسیح کا دور ہے جب ار شہر کو سمیری بادشاہ نے اپنا مرکز بنایا یہ دور تقریبًا ایک سو سال پر مشتمل رہا۔۔
اس کے بعد ار شہر کی سلطنت کا دوسرا دور شروع ہوا جو کہ چوبیسویں قبل مسیح کا زمانہ تھا۔
اس دوسرے دور کا اختتام سارگون نامی بادشاہ جو کے اکاد سے تعلق رکھتا تھا کے ار شہر پر قبضے سے ہوا۔
تیسرا اور آخری دور ار سلطنت کا اکسیویں صدی قبل مسیح کا دور ہے ۔
بیسویں صدی قبل مسیح کا آغاز سمیری تہذیب کا اختتام لیے آیا جب موجودہ شام کی طرف سے آنے والے عموری لوگوں نے ار شہر پر قبضہ کر لیا۔۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عموری عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے اوق بعض انھیں اںڈیا سے آنے والا قرار دیتے ہیں۔۔
1763 قبل مسیح میں اس شہر پر بابل کے بادشاہ حمورابی نے قبضہ کر لیا
ار شہر میں آخری قابل ذکر تعمیرات بابل کے بادشاہ بخت نصر کے دور میں ہوئیں۔سائرس کے اس علاقے پر قبضے کے بعد یہ یہ شہر بھی ایرانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔۔
چوتھی صدی قبل مسیح تک یہ شہر آباد رہا مگر اس کے بعد دریا کے رخ بدلنے کے باعث یہ شہر آہستہ آہستہ ویران ہوتا گیا۔۔
ار شہر کا آثار قدیمہ میں سب سے قابل ذکر سمیری لوگوں کے چاند کے دیوتا نیننا نامی دیوتا کی عبادت گاہ ہے جسے زیگورات کہا جاتا ہے۔
اس زیگورات کی بنیاد کی لمبائی 64 میٹر ،چوڑائی 46میٹر ہے اور عبات گاہ کی بلندی 30 میٹر کے قریب ہے۔ اس زیگورات کی تعمیر اور شہر کی سلطنت کے تیسرے دور کے بادشاہ ارنامو نے شروع کروائی تھی اور یہ اکیسویں صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا۔۔
یہاں معلومات کے لیے یہ بتانا ضروری کہ میسو پوٹیمیا موجودہ عراق اور اس کے قریب کے علاقے کو کہا جاتا ہے اور اس قدیم دور میں دو اہم تہذیبوں کے لوگ اس علاقے میں پائے جاتے تھے
آشوری اور سمیری
میسوپوٹیمیا کے شمالی حصے میں آباد لوگوں کو آشوری کہا جاتا ہے
جبکہ جنوبی حصے میں آباد لوگوں سمیری کا نام دیا گیا ہے۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں