- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بیسویں صدی کا آ غا ز بحری جہازوں کی صنعت کے عروج کا آغاز بھی ثابت ہوا جب مختلف کمپنیاں ایک سے بڑھ کر ایک بحری جہاز بنانے کی دوڑ میں شامل ہو رہی تھیں ،جہاں ان جہازوں کو بنانے کا مقصد سامان کی ترسیل تھا وہیں مسافر بحری جہازوں میں بھی نے نئی سہولیات سامنے لائی جا رہی تھیں۔۔
1908 میں برطانوی جہاز ساز کمپنی کونارڈ نے اس وقت کے سب سے بڑے اور تیز مسافر بحری جہاز بنا کر اس دوڑ کا آغاز کیا۔۔یہ دو جہاز موریطانیہ اور لوزیطانیہ تھے۔۔ان دونوں جہازوں میں مسافروں کی گنجائش 2198 تھی ۔۔۔ اس کمپنی کی حریف کمپنی وائٹ سٹار نے کاروباری مسابقت میں تین بڑے جہاز بنانے کا اعلان کیا جن کے نام
اولمپک ،بریطانک اور ٹائی ٹینک رکھے گئے۔۔ان جہازوں کی لمبائی 828 فٹ تھی اور یہ لمبائی موریطانیہ اور لوزیطانیہ سے ایک سو فٹ زیادہ تھی،اور ان جہازوں
میں سفر کرنے والوں کی گنجائش 3300 تھی۔۔ مذکورہ جہازوں میں مسافروں کے لیے ہر طرح کی آسائش کی سہولیات مہیا کی گئی تھیں اس جہاز کی درجہ دوم کا موازنہ دوسرے جہازوں کے درجہ اول سہولیات سے کیا جاتا تھا۔۔
جہاز کی لمبائی تقریباً 275 میٹر اونچائی 54 میٹر اور وزن 46000 ٹن کے قریب تھا۔
1908 میں ان تین جہازوں کو بنانے کے کام کا آغاز ہوا اور یہ تین سال میں مکمل ہوا۔۔ہر جہاز پر اس وقت 7.5 ملین ڈالر کا خرچ آیا اور تقریباً تین ہزار افراد نے اس کام۔کو مکمل کیا۔۔
اپنی خصوصیات کی بنا پر ان جہازوں کو نا ڈوبنے والے جہازوں کا نام دیا گیا تھا۔۔"ان سنک ایبل شپ"،
ان تینوں جہازوں میں سے پہلا سفر اولمپک نامی جہاز نے نیویارک کا کیا اور یہ سفر پانچ دن میں مکمل ہوا ۔۔یہ سفر جون 1911 میں ہوا۔۔
مارچ 1912 میں ٹائی ٹینک جہاز وقت سے تین ماہ پہلے تیار ہو چکا تھا ۔
اس جہاز کی ایک خاص خصوصیت اس کا ریڈیو روم تھا جو کہ اس سے پہلے صرف اولمپک نامی جہاز میں تھا۔۔اور اس ریڈیو روم میں جو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا وہ اس قدر طاقتور تھا کہ وہ دو ہزار میل تک رابطہ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔۔
آخر کار 10اپریل کو ٹائی ٹینک اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے کے لیے بندرگاہ پر تیار تھا ۔۔اور اس میں عملے سمیت 2229 افراد سوار تھے اور جہاز کی کمان کیپٹن ایڈورڈ سمتھ کے پاس تھی۔۔
دوپہر کے بعد یہ جہاز اپنے سفر پر روانہ ہوا ابتدائی دو سٹاپ آئر لینڈ اور فرانس کی بندرگاہوں پر کرنے کے بعد جہاز نیو یارک کی سمت روانہ ہوا۔۔
تین دن کے سفر کے بعد جب یہ جہاز اپنا آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا یہ بحر اوقیانوس کے اس حصے میں پہنچ کا تھا جہاں اس موسم میں بڑے بڑے آئس برگ سمندر میں تیرتے ہوتے تھے۔۔
14 اپریل کو اتوار کے دن تمام اہلکاروں کو موسم اور سمندر پر بہت احتیاط سے نظر رکھنے کا حکم تھا اور یہ وہ وقت تھا جب سمندر اور موسم دونوں بہت پرسکون تھے اور صرف خطرہ تھا تو صرف پانی میں تیرتے آئس برگ کا۔۔۔
سب کچھ پرسکون تھا کہ رات کے 11:39 پر عملے کے ایک رکن فریڈرک فلیٹ کی نظر اس آئس برگ پر پڑی جو کچھ میٹر کی دوری پر تھا اور ٹائیٹینک اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔جس پر فوراً خطرے کا الارم بجایا گیا جو کہ آئس برگ کے خطرے سے آگاہ کرتا تھا جس پر فوراً جہاز کو روکنے کا کہا گیا۔۔۔۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا اور صرف سینتیس سیکنڈ کے بعد ٹائیٹینک 50 سے 100 فٹ اونچے اور 200سے 400فٹ لمبے
آئس برگ سے ٹکرا گیا۔۔
نقصان کا اندازہ ہوتے ہی کپتان سمتھ نے جہاز کے مسافروں کو لایف بوٹس کے زریعے بچانے کے احکامات دیے جس کے لیے سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو اتارنا شروع کیا گیا۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ مدد کے لیے ہنگامی سنگلز بھی دیے جا رہے تھے۔۔
ہنگامی سنگلز کا جواب دینے والے جواب بدقسمتی سے اس مقام سے کئی سو میل دور تھے اور سب سے قریب جو جہاز تھا وہ اس وقت خاموش تھا۔۔اس ہنگامی سنگنل کے جواب میں جو جہاز اس سمت روانہ ہوا وہ وہاں سے 58 میل دور تھا۔۔اور وہ تیزی سے حادثے کے مقام کی طرف روانہ ہوا۔ مگر اسے جائے حادثہ پر پہنچنے کے لیے تین گھنٹے کا وقت درکار تھا۔۔
ادھر ٹائیٹینک پر ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کو بچانے کی کاروائی شروع تھیں۔۔اور لائف بوٹس کے زریعے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر یہاں حیرت کی بات اور اموات زیادہ ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ لائف بوٹس میں ان کی صلاحیت سے کم لوگ سوار کروائے گئے۔۔
دو بجے کے قریب جب جہاز کا اگلا حصہ تقریباً پانی میں ڈوب چکا تھا ریڈیو روم سے آخری پیغامات نشر کیے گئے کیونکہ اس وقت تک پانی انجن روم میں بھر چکا تھا اور یہ آخری پیغامات کچھ اس طرح کے تھے۔۔
ہم تیزی سے ڈوب رہے ہیں،ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔ 2:10 پر آخری لائف بوٹ پانی میں اتاری گئی اور اس کے چند منٹ بعد ہی جہاز کی چمنی پانی میں ڈوب چکی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں جہاز تیزی سے پانی میں ڈوبنے لگا اور اس کے ساتھ پندرہ سو مسافر بھی کیونکہ صرف سات سو افراد کشتیوں میں سوار ہو سکے تھے۔۔۔
2:45 کے قریب ٹائیٹینک کی مدد کو آنے والا جہاز اس علاقے کے قریب پہنچ گیا اور اس نے ٹائی ٹینک کو تلاش کرنے کی کوشش شروع کی اور انھیں 4:00 بجے کے قریب پہلی کشتی نظر آئی جس میں ٹائیٹینک کے بچ جانے والے والے مسافر تھے۔۔اس امدادی جہاز کا نام carpathia تھا۔۔
8:30 صبح کے وقت ٹائیٹینک کے بچ جانیوالوں کی آخری کشتی تلاش کی گئی جو کہ ڈوبنے کے قریب تھی۔۔
کہا جاتا ہے کہ اس حادثے سے بچ جانیوالے افراد کی تعداد 712 تھی۔ جن میں سے 706 بچ پائے ۔۔
ڈوب جانیوالے والوں میں 815 مسافر اور 688 عملے کے ارکان شامل تھے
یہ جہاز 18 اپریل کو ٹائی ٹینک کے بچ جانیوالے مسافروں کو لے کر نیویارک کی بندرگاہ پر پہنچا جہاں 40000 ہزار افراد اس کو 700 افراد کی زندگیاں بچانے ہر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع تھے۔۔
اس کے ساتھ ہی لاشوں کی تلاش کا عمل بھی شروع کیا گیا مگر صرف۔ 337 لاشیں تلاش کی جا سکیں جن میں سے 128 کو سمندر میں ہی دفنانا پڑا اور صرف 209 لاشیں واپس لائی جا سکیں جن میں سے اکثر ناقابل شناخت تھیں۔۔ان میں سے 59 کو شناخت کیا جاسکا اور بقیا لاشوں کو ہیلی فیکس کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔۔
کپتان سمتھ بھی ڈوب جانے والے افراد میں شامل تھا اور اس کی لاش بھی نہیں مل سکی۔۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ٹائیٹینک اپنے وقت پر مکمل ہوتا تو شاید یہ حادثہ اس کا مقدر نہ بنتا وقت سے جلدی بننے سے ہی وہ اس موسم میں سفر پر روانہ ہوا جس میں آئس برگز اس راستے میں ہوتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ایک دلچسپ بات ٹائیٹینک کے مسافروں کو بچانے والا جہاز اور وہ جہاز جس کے مقابلے کے لیے ٹائیٹینک اور اس کے ساتھ والے جہاز بنائے گئے دونوں جنگ عظیم اول میں جرمن فوج کے حملے میں غرق ہو گئے۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں