Featured post

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ‏عنہ

تذکرہ صحابہ کرام

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب،آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت عبدالرحمن تھی اور آپ کی والدہ کا نام ام عبد تھا۔آپ کا شمار اسلام کے شروع کے عرصہ میں اسلام لانے والے افراد میں ہوتا ہے۔آپ رضی اللہ سےروایت ہے کہ میں اسلام لانے والا چھٹا شخص تھا اور روئے زمین پر ہم چھ اشخاص کے والا کوئی مسلمان نہیں تھا۔
آپ کے اسلام لانے کا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے اس کے مطابق آپ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کے میں بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور ایک دن میں بکریاں چرا رہا تھا کہ رسول کریم  ﷺ تشریف لائے  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ بھی آپ کے ہمراہ تھے آپ ﷺ نے فرمایا اے لڑکے ترے پاس کچھ دودھ ہے میں نے عرض کیا ہاں مگر میں دے نہیں سکتا کیونکہ میں امین ہوں آپ ﷺ نے فرمایا  اچھا کوئی بکری لے آؤ جو گھابن نہ ہو تو میں ایک جوان بکری آپ ﷺ کے پاس لے گیا آپ ﷺنے اس کے پیر باندھ دیے اور اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع  اور دعا فرمائی یہاں تک کہ اس کے دودھ اتر آیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ ایک برتن لے آئے اور آپ ﷺ نے اس بکری کا دودھ دھویا  اور حضرت ابوبکر رضی اللہ سے فرمایا پیو پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے دودھ پیا اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے پیا پھر آپ ﷺنے  تھنوں کو کہا کہ سکڑ جاؤ اور وہ اپنی پرانی حالت پر ہوگئے۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے بھی یہ کلام سکھا دیجیے یا قران میں سے کچھ سکھا دیجیے آپ ﷺنے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ تم سیکھے سکھائے ہو۔۔۔
بعض روایات کے مطابق جب سعید بن زید اور انکی بیوی فاطمہ بنت خطاب نے اسلام قبول کیا اس دن آپ رضی اللہ نےبھی اسلام قبول کیا۔آپ رضی اللہ نے رسول کریم ﷺ کے دار ارقم میں قیام سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔
جب آپ رضی اللہ ایمان لائے تو رسول کریم  ﷺ نے ان کو اپنے اپنے پاس رکھ لیا ۔اور آپ رضی اللہ رسول کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتے تھے۔اور رسول کریم ﷺ  آپ کو فرمایا تھا کہ جب تم میری آواز سن لو اور پردہ نا پڑا ہو تو اندر آ جایا کرو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔آپ رضی اللہ رسول کریم ﷺ کو جوتی پہناتے،آپ ﷺکے ساتھ کہیں جانے کی ضروت ہوتی تو ساتھ جاتے ،آپ ﷺ کو بیدار کرتے، جب رسول کریم ﷺ غسل کرتے تو آپ پردہ لے کر کھڑے ہوتے۔
آپ کی اور آپ کی والدہ کی نبی کریم ﷺ کے گھر آمدروفت دیکھ کر باہر سے آنے والے لوگ آپ کو نبی کریم ﷺ کے اہل بیت سے خیال کرتے تھے۔آپ کی انھیں خدمات کی بدولت آپ کو صاحب السوادبھی کہا جاتا ہے  ۔سوادار  رازدار کو کہتے ہیں۔


آپ رضی اللہ نے دو حجرتیں کیں یعنی حبشہ اور مدینے کی طرف تمام غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہے۔ابو جہل پر آخری وار آپ ہی نے کیا تھا۔
رسول کریم ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی تھی۔
رسول کریم ﷺ نے آپ میں اور معاذ بن جبل  رضی اللہ  کے درمیان عقد مواخاۃ کروایا۔

آپ رضی اللہ کہتے تھے کہ میں نے رسول کریم ﷺسے ستر سورتیں بلاوسطہ یاد کی  ہیں اور اس فضیلت میں میرا کوئی شریک نہیں۔رسول کریم ﷺ کے بعد مکہ میں بالاعلان قران پاک پڑھا۔
حضرت علی رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں مشورے کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد کو بناتا ۔یرموک کے دن مال غنیمت آپ رضی اللہ کے سپرد تھا۔حضرت عمر رضی اللہ نے آپ کو کوفے میں معلم اور وزیر بنا کر بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا کہ تمھارے لیے میں نے عبداللہ بن مسعود کو اپنے سے بہترسمجھا ہے۔
ایک بار کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن  مسعود سے زیادہ کسی کو خلیق تعلیم میں  نرمی کرنے والا اور علم مجلس کا ماہر اور متقی نہیں دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا تم یہ سب صدق دل سے کہہ رہے ہو تو کہنے والوں نے کہا ہاں ۔۔تو حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا کہ  اے اللہ گواہ رہ میں بھی ایسا ہی کہتا ہوں ۔
روایت میں آتا ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ کے پاس کچھ لوگ موجود تھے تو  ایک دبلا پتلا آدمی آیا تو حضرت عمر رضی اللہ اس کی طرف دیکھنے لگے  اور خوشی سے انکا چہرہ کھل اٹھا وہ ان سے ہنس ہنس کر بات کر رہے تھے ان کے جانے کے بعد فرمایا یہ ایک ظرف ہے علم سے بھرا ہوا،یہ ایک ظرف ہے علم سے بھرا ہوا یہ ایک ظرف ہے علم سے بھرا ہوا وہ دبلا پتلا شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کو ان کی حسن سیرت،میانہ روی اور ان کے طریقے میں  رسول اللہ ﷺ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
آپ رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک بار آپ نے کوئی حدیث بیان کی جب یہ کہا کہ میں نے رسول اللہ سے  سنا  تو وہ اور ان کے کپڑے کانپنے لگے  یہاں تک کہ آپ نے کہا  اس کے مثل یا اسی کے قریب کچھ روایات کہ مطابق تب آپ عصا کا سہارا لیے ہوئے تھے تو عصا بھی کانپنے لگا اور آپ کے چہرے پر پسینہ آ گیا۔۔۔

آپ کا حلیہ کچھ ایسا بیان کیا جاتا ہے کہ آپ دبلے پتلے کم گوشت والے آدمی تھی،گندمی رنگ اچھا سفید کپڑا اور بہترین خوشبو لگانے والے لوگ رات کو آپ کی خوشبو کی وجہ سے پہچان جاتے تھے۔
آپ رضی اللہ نے 32 ہجری میں وفات پائی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔آپ کی نماز جنازہ کی امامت کے متعلق دو روایات ہے ایک کے مطابق حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے امامت کروائی جبکہ دوسری کے مطابق عمار بن یاسر رضی اللہ نے امامت کروائی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے جب آپ کو کوفے سے بلوایا تو  وہاں کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو وہیں رکنے کا کہا  اور آپ کی حفاظت کرنے کی یقین دہانی کروائی  یعنی کے آپ کو خلیفہ کا حکم ماننے سے انکار کا کہا جس پر آپ نے کہا نہیں مجھ پر ان کی اطاعت ضروری ہے  دیکھو عنقری کچھ فتنے پیدا ہوں گے میں نہیں چاہتاکہ ان فتنوں کو پیدا کرنے والا میں ہوں اور آپ واپس مدینے چلے آئے۔
ایک بار رسول کریم ﷺ نے آپ کو کسی کام سے  درخت پر چڑھنے کا کہا  تو  لوگوں نے آپ کی کمزور  پنڈلیوں  پر ہنسی کی تو رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ تم لوگ کیا ہنستے ہو  قیامت کے دن  عبداللہ کا قدم میزان احد سے زیادہ وزنی ہوگا۔

تبصرے