- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بن نعمان بن امری القیس بن عبدالاشہل،آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کبشہ بنت معاویہ بنت رافع تھیں ۔آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ بھی صحابیہ تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کے طبقہ انصار سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کی کنیت ابو عمر تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ کا شمار مدینہ کے اولین ایمان لانے والے صحابہ میں ہوتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔جب رسول کریم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی طرف مسلمانوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا تھا ۔
جب آپ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تو آپ نے بنی عبدالاشہل سے کہا کہ مجھ پر تمھارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا حرام ہے یہاں تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ۔چنانچہ وہ سب ایمان لے آئے۔۔
روایت کے مطابق رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا عقد مواخات حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ کروایا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہ عقد مواخات حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے ساتھ کروایا۔
آپ رضی اللہ عنہ تینو غزوات بدر،احد اور خندق میں شامل رہے۔
بدر کے دن قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔غزوہ بدر کے موقع پر جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ مانگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ نے مشورہ دیا مگر آپ ﷺ کی مراد انصار سے تھی کیوں کہ انصار تعداد میں زیادہ تھے تو سعد رضی اللہ نے کہا بخدا گویا کہ آپ ہم سے مشورہ لینا چاہتے ہیں تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں۔۔۔تو سعد رضی اللہ نے کہا کہ ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں ،آپ ﷺ کی تصدیق کی ہے اور ہم لوگوں نے گواہی دی ہے کہ جو کچھ آپ لائے ہیں وہ سچ ہے اور ہم لوگوں نے آپ کی اطاعت کرنے پر اپنے قول دیے ہیں پس یا رسول اللہ ﷺ آپ نے جس کام کا ارادہ کیا ہے اسے پورا کیجیے ہم آپ کے ساتھ ہیں اللہ کی قسم اگر آپ ﷺ ہم کو لے کر اس دریا میں گھسنا چاہیں تو ہم آپ ﷺے ساتھ اس میں گھس جائیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا تو ہم یہ بات کیوں ناپسند کریں گے کہ آپ ﷺہم کو ساتھ لے کر دشمنوں سے مقابلہ کریں ہم لڑائی کے وقت صابر رہیں گے مقابل پہنچنے پر شاید اللہ تعالی آپ ﷺکو ہم لوگوں میں وہ بات دکھائے کہ جس سے آپ ﷺکی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو پس آپ ﷺ اللہ کا نام لے کر ہم کو ساتھ لے چلیے۔۔رسول کریم ﷺآپ کے اس بیان سے خوش ہوئے۔۔
غزوہ احد میں بھی آپ رضی اللہ کا شمار ثابت قدم رہنے والوں میں ہوتا ہے۔
غزوہ خندق میں آپ رضی اللہ شامل ہوئے تو ابن العرقہ نامی مشرک کا چلایا تیر آپ رضی اللہ عنہ کی ہاتھ کی رگ میں لگا۔۔۔۔سعد بن معاذ رضی اللہ نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اسے وقت تک موت نہ دے جب تک تو بنی قریظہ سے میرا دل ٹھنڈا نہ کردے۔کہتے ہیں اس وقت ان کا زخم بند ہوگیا۔۔۔
غزوہ خندق کے بعد جب رسول کریم ﷺ بنی قریظہ کا رخ کیا تو وہ قلعہ بند ہوگئے تو اسلامی لشکر نے ان کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ پچیس دن تک چلا تب ان کو کہا گیا کہ رسول کریم ﷺ کے حکم پر اتر آؤ مگر انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ ہم لوگ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر اتریں گے تب رسول کریم ﷺ نے فرمایا اچھا سعد بن معاذ کے حکم پر ہی اتر آؤ اس وقت رسول کریم ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا یا جو زخمی ہونے کی وجہ سے اپنے صاحب فراش تھے تو سعد رضی اللہ گدھے پر سوار ہو کر چلے آئے۔
بنی قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر قلعہ سے اتر آئے ۔
رسول کریم ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ سعد ان لوگوں کے بارے میں حکم دو۔۔ تو آپ نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اس امر کا اندیشہ ہے کہ میں ان کے بارے میں اللہ کے حکم کو نہ پہنچ سکوں گا تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا ان لوگوں کے بارے میں تم ہی فیصلہ کرو۔۔۔۔تو آپ نے کہا کہ فیصلہ یہ ہے کہ سپاہی قتل کیے جائیں اور ذریت قید کی جائے۔۔۔۔تو رسول کریم ﷺنے فرمایا تم ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو پہنچ گئے۔۔
اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے دعا کی اے اللہ اگر تو نے اپنی نبی ﷺ پر قریش کی کوئی جنگ باقی رکھی ہے تو مجھے بھی اس کے لیے باقی رکھ اور اگر تو نے آپ ﷺ اور قریش کے درمیان جنگ منقطع کردی ہے تو مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔۔کہتے ہیں کہ اس کے بعد ان کا زخم پھٹ گیا اور اس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی۔۔
زخم پھٹنے کے بعد آپ ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور انھیں گلے سے لگا لیا باوجود اس کے خون آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر بھی بہنے لگا۔۔۔
ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا سر اپنی آغوش میں رکھ لیا اور دعا فرمائی کہ
اے اللہ سعد نے تیری راہ میں جہاد کیا ،تیرے رسول کی تصدیق کی اور جو ان کے ذمے تھا اسے ادا کردیا لہذا ان کی روح کو اسی خیر کے ساتھ قبول کر جس کے ساتھ تو نے کسی کی روح قبول کی۔
یہ سن کر سعد رضی اللہ نے آنکھیں کھول کر کہا
السلام علیکم یا رسول اللہ،دیکھیے میں گواہی دیتا ہوں کے آپ اللہ کے رسول ہیں۔۔
روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ کی وفات سے اگلی صبح جب رسول کریم ﷺ بیدار ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام یا کوئی اور فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ آپ کی امت کا جو آدمی رات کو وفات پا گیا اس کی وفات سے اہل سماء خوش ہوئے کہ اتنا پاکیزہ آدمی ان میں شامل ہوا۔۔۔تو آپ ﷺ نے فرمایا میں سوائے سعد کے کسی کو نہیں جانتا جس کی شام بحالت بیماری میں ہوئی۔۔اس پر آپ ﷺنے آپ رضی اللہ کے متعلق دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ان کی وفات ہوگئی ہے اور ان کی قوم ان کو ان کے گھر لے گئی ہے۔۔تو رسول کریم ﷺ بھی وہاں کو روانہ ہوئے اور کہتے ہیں کہ آپ ﷺاتنی تیز چلے کے صحابہ نے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ہمیں چلنے میں تھکا دیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ ملائکہ ہم سے پہل پہنچ کر انھیں غسل نہ دے دیں جیسا کہ حنظلہ کو غسل دے دیا تھا۔
لوگ جب جنازہ اٹھائے لے جارہے تھے تو انھوں نے کہا کہ ایسی میت آج تک نہیں اٹھائی جو اتنی ہلکی ہو تو رسول کریم ﷺنے ایک کثیر تعداد ملائکہ کی بتائی جو میت کو اٹھائے ہوئے تھی۔۔
اسی طرح روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جنازے کے لیے ستر ہزار ایسے ملائکہ موجود تھے جو زمین پر کبھی نہیں اترے تھے۔
اس طرح روایات ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد رضی اللہ کی وجہ سے عرش ہل گیا
اسی طرح روایت ہے کہ ایک بار ریشم کی چادر لائی گئی تو لوگ اس کی نرمی پر تعجب کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ کے رومال اس سے زیادہ نرم ہیں۔۔
سنہ 5ہجری میں غزوہ خندق میں آپ رضی اللہ کو تیر لگا جس کے زخم سے آپ کا انتقال ہوا وقت وفات آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 37 برس بیان کی جاتی ہے۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ کے حلیے کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لمبے قد کے گورے اور خوبصورت ،بڑی آنکھوں اور خوبصورت داڑھی والے شخص تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں