- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
آپ کو سعد بن مالک بھی کہا جاتا ہے۔سعد بن مالک بن وہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب ،ابو وقاص کا نام مالک تھا۔آپ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھےاور آپ کی کنیت ابو اسحق تھی۔
بعض روایات کے مطابق آپ چھ اور بعض روایات کے مطابق چار آدمیوں کے بعددائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔اسلام قبول کرنے کے وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی۔آپ رضی اللہ کہا کرتے تھے کہ میں نماز فرض ہونے سے قبل ایمان لایا ۔
آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سے ہیں ۔
آپ رضی اللہ ان چھ صحابہ کرام کی مجلس شوری کے رکن بھی تھے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد خلافت کے انتخاب کے لیے بنائی تھی۔
آپ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔آپ رضی اللہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے اللہ کے راہ میں تیر چلایا۔۔
روایت ہے کہ ایک بار حضرت سعد رضی اللہ آرہے تھے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں کوئی شخص ایسا ماموں اپنا مجھے دکھائے تو میں مانوں۔آپ ﷺ کا حضرت سعد رضی اللہ کو ماموں کہنا اس وجہ سے تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ کا تعلق قبیلہ زہرہ سے تھا اور آپ ﷺ کی والدہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔اور حضرت سعد رضی اللہ آپ ﷺ کی والدہ کے چچا کےبیٹے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے اللہ سعد جب تجھ سے دعا کرے تو اس کو قبول کر پس یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ جب دعا کرتے وہ پوری ہوتی۔
آپ کی بیٹی عائشہ بنت سعد رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ نے بتایا کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل ایک خواب دیکھا کہ میں تاریکی میں ہوں اور مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ یہاں تک کہ میرے سامنے چاند روشن ہوگیا اور میں اس کے پیچھے چلا جاتا ہوں اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ اس چاند کی طرف مجھ پر کون سبقت لے گیا ہے ،زید بن حارثہ،علی ابن ابی طالب اور ابوبکر کو دیکھتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ تم لوگ اس جگہ کب پہنچے تو انھوں نے جواب دیا ابھی۔ پھر چند دن بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ رسول کریمﷺ پوشیدہ طور پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں پس میں اجیاد کی گھاٹی میں نماز عصر پڑھنے کے بعد آپ ﷺ سے ملا اور مسلمان ہوگیا سوائے ان لوگوں کے جن کو میں نے خواب میں دیکھا اسلام میں کوئی مجھ سے سبقت نہیں لے گیا تھا۔
اپنے قبول اسلام کی مخالفت بیان کرتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں اپني والدہ کا بہت مطیع تھا میرے اسلام قبول کرنے پر انھوں نے کھانا پینا چھوڑ دینے کی دھمکی دی جس پر آپ نے کہا اے والدہ ایسا نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑوں گا جس پر انھوں نے ایک دن کچھ نہ کھایا نہ پیا اور بہت بے چین رہیں مگر میں نے کہا اگر تمھاری ہزار جانیں ہوتیں اور ایک ایک کر کے نکل جاتیں تو بھی میں اپنا دین نہیں چھوڑتا یہ حالت دیکھ کر والدہ نے کھانا پینا شروع کردیا۔۔۔
یک روایت کے مطابق رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ کے درمیان مواخات کروائی جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ اور سعد بن معاز رضی اللہ کے درمیان مواخات کروائی۔
غزوہ بدر میں آپ کو لڑتا دیکھ کر کہا گیا کہ پیدل ہو کر شہسواروں کی طرح کی جنگ کی۔
حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ میں نے غزوہ احد میں رسول کریم ﷺ کو کہتے سنا کہ اے سعد تیر اندازی کرو میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
ایک روایت کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ نے احد کے دن ایک ہزار تیر چلائے۔
فتح مکہ کے دن مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا آپ کے پاس تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ کے دور خلافت میں آپ کی سربراہی میں ایرانیوں سے جنگ کے لیے لشکر بھیجا گیا۔آپ کی سربراہی میں ہی قادسیہ اور جلولا کی جنگیں جیتی گئی تھیں۔
آپ رضی اللہ کو کوفے کا بانی کہا جاتا ہے ،ایک وقت میں آپ عراق کے والی رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ نے آپ کو معزول کردیا۔حضرت عمر رضی اللہ نےآپ کو صحابہ کرام کی شوری میں شامل کیا جس کا مقصد تیسرے خلیفہ کا انتخاب تھا ،حضرت عمر رضی اللہ نے اپنےوقت وفات پر کہا کہ اگر تو یہ خلیفہ منتخب ہو تو خیر ورنہ میرے بعد جو خلیفہ مقرر ہو اس کو وصیت کرتا ہوں کہ ان کو عامل مقرر کرے کیوں کہ ميں نے انھیں ان کی نالائقی یا خیانت کی بدولت معزول نہیں کیا حضرت عثمان رضی اللہ نے آپ کو کوفے کا عامل مقرر کیا۔۔۔۔۔
حضرت عثمان رضی اللہ کی شہادت کے بعد آپ رضی اللہ گوشہ نشین ہوگئے اور لڑنے والوں میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیا
روایت ہے کہ آپ رضی اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو جہاد سے کیا چیز روکتی ہے تو آپ رضی اللہ نے کہا کہ جب تک تم مجھے ایسی تلوار نہ دو جو مومن اورکافر کو پہچانتی ہو۔
حضرت سعد رضی اللہ کا انتقال عقیق میں ہوا اور پھر آپ رضی اللہ کی میت کو مدینے لایا گیا
مدینے میں جب آپ کی میت کو لایا گیا تو ازواج نبی کریم ﷺ نے پیغام بھجوایا کہ آپ رضی اللہ کا جنازہ مسجد سے گزارا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جنازے کو حجروں کے پاس روکا گیا جہاں انھوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔آپ رضی اللہ کا جنازہ مروان بن الحکم والی مدینہ نے پڑھایا۔
آپ کی وفات 55 ہجری میں ہوئی بعض کے نزدیک 54 ہجری اور بعض کے نزدیک یہ 57 ہجری کا واقعہ ہے۔کچھ کے نزدیک 50 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ اپنی وفات سے قبل آپ رضی اللہ نے بالوں کا بنا ایک پرانا جبہ منگوایا اور کہا کہ مجھے اس میں کفنانا کیونکہ بدر کے دن میں اسی کو پہنے مشرکوں سے لڑا تھا۔اور یہ اسی واسطے رکھا ہوا تھا۔
عائشہ بنت سعد رضی اللہ کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ پست قد ،موٹے ،بڑے سر والے تھے انگلیاں موٹی اور بال بہت زیادہ تھے اور آپ بالوں پر سیاہ خضاب لگاتے تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں