- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام۔۔۔۔
امین الامت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی الله عنه کا نام عامر بن عبداللہ بن الجراح تھا
آپ کی والدہ امیمہ بنت غنم بنت جابرتھیں۔۔۔۔
آپ رضی اللہ ے دو صاحبزادے عمیر اور یزید تھے ۔۔۔ان دونوں کی والدہ کا نام ہند بنت جابر تھا۔۔۔۔۔
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دار ارقم میں جانے سے پہلے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ،عثمان بن مظعون اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کو مشرف بالسلام فرمایا۔۔۔۔
عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو کلثوم بن الہدم کے پاس اترے۔۔۔۔۔۔
آپ رضی اللہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور جب احد میں مسلمانوں میں افراتفری پھیلی تو آپ رضی اللہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ سے سنا ہے کہ جب یوم احد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر تیر چلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں رخساروں میں خود کے دو حلقے گھس گئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔اور ایک اور انسان مشرق کی طرف سے دوڑتا ہوا آیا تو میں نے کہا کہ اے اللہ اسے خوشی بنا۔۔
پھر ہم دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں پہنچے تو وہ ابو عبیدہ بن الجراح تھے جنھوں نے مجھ پر سبقت کی تھی۔۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ میں اللہ کے لیے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں سے اسے کھینچ لوں۔۔۔میں نے انھیں چھوڑ دیا ۔۔انھوں نے اپنے دانت سے خود کا ایک حلقہ پکڑ کر کھینچا توپشت کے بل گر پڑے اور آپ کا دانت ٹوٹ گیا اور پھر آپ نے خود کا دوسرا حلقہ پکڑ کر کھینچا تو وہ دانت بھی ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ رضی اللہ تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے آپ کا شمار اکابر صحابہ میں تھا۔۔۔۔۔۔
انس بن مالک رضی اللہ سے مروی ہے کہ جب اہل یمن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو انھوں نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کسی کو بھیجیں جو ان کو اسلام اور سنت کی تعلیم دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
روایت کی ہے کہ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ کیسے اچھے آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
قتادہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ کی مہر کا نقش یہ تھا۔۔۔کان الخمس اللہ۔۔یعنی خمس اللہ کا ہے۔۔۔۔
روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا کہ کسی نے کچھ آرزو کی کسی نے کچھ ۔۔میری خواہش یہ ہے کہ
میرا ایک مکان ہوتا جو ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ جیسے لوگوں سے بھرا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح روایات ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ اگر ميں ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ کا پاتا تو انھیں خلیفہ بناتا اور اگر اس بارے میں مجھ سے سوال ہوتا تو کہتا کہ
میں نے اس امت کے امین کو خلیفہ بنایا۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا جو حلیہ بیان کیا جاتا ہے اس کے مطابق آپ دبلے پتلے لمبے چھدری داڑھی والے، ابھرے سینے والے۔۔۔ انکے چہرے پر بھرا ہوا گوشت نہ تھا۔۔سر کے بالوں اور داڑھی کو مہندی سے رنگتے تھے۔۔۔۔۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ کی وفات طاعون کی وباء کے دوران ہوئی۔۔۔جو کہ حضرت عمر رضی اللہ کی خلافت کا زمانہ ہے۔۔
روایت کے مطابق جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تو اس وقت آپ اکیالیس برس کے تھے اور آپ کی وفات 18 ہجری میں ہوئی اور وقت وفات آپ کی عمر 58 سال تھی۔۔۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں