- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب ،آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کی والدہ کا نام صعبہ بنت عبداللہ تھا۔
آپ طلحتہ الخیر اور طلحتہ الفیاض کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں۔
آپ کا شمار شروع میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں ہوتا ہے آپ رضی اللہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اسلام کا پیغام پہنچایا اور آپ رضی اللہ تعالی ہی حضرت طلحہ کو رسول کریم ﷺ
کی خدمت میں لے کر گئے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ کو قرنیین بھی کہا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ دونوں کو نوفل بن خویلد نے رسی کے ساتھ باندھ دیا تھا اور نوفل کا شمار قریش کے سب سے سنگ دل افراد ميں ہوتا تھا بعض روایات میں آپ کو باندھنے والے کا نام عثمان آیا ہے جو حضرت طلحہ رضی اللہ کا بھائی تھا جس نے آپ دونوں کو اس لیے باندھا کہ آپ نماز ترک کردیں۔مگر آپ ثابت قدم رہے۔
مکہ میں رسول کریم ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ اور حضرت زبیر رضی اللہ کے درمیان مواخات کروائی اورہجرت مدینہ کے بعد آپ میں اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ میں مواخات کروائی۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عشرہ مبشرہ سے ہیں ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ حضرت عمر رضی کی بنائی ہوئی مجلس شوری کے رکن بھی تھے۔
آپ رضی اللہ غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شامل ہوئے اورغزہ بدر میں شامل نہ ہونے کی وجہ آپ کا شام میں ہونا تھا روایات کے مطابق ملک شام آپ کو رسول کریم ﷺ نے بھجوایا تھا۔
غزوہ احد میں آپ رضی اللہ نے بہادری اور شجاعت کا اعلی ترین نمونہ دکھایا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈھال کے طور پر کر دیا۔تیر کو اپنے ہاتھ پر روکا جس سے انگلی بیکار ہوگئی ، اور تلوار کا ایک وار آپ رضی اللہ کے سر پر بھی پڑا تھا۔آپ رضی اللہ نے رسول کریم ﷺ کو اپنی پشت پر سوار کر کے پہاڑ پر چڑھایا ۔۔۔۔غزوہ احد کا ہی موقع تھا جب رسول خدا ﷺ نے آپ رضی اللہ کو طلحتہ الخیر کہہ کر پکارا۔۔
حضرت زبیر رضی اللہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں رسول کریم ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے اور جب آپ ﷺ نے پہاڑ پر چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے تب رسول کریم ﷺ نے طلحہ رضی اللہ کو نیچے بٹھایا اور ان پر پیر مبارک رکھ کر پہاڑ پر چڑھے تب رسول کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ طلحہ نے جنت کو اپنے اوپر واجب کر لیا۔۔
یہ بھی روایت ہے کہ جب احد کے میدان میں رسول کریم ﷺ زخمی ہوئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ آپ ﷺ کو اپنی پشت پر اٹھا کر گھاٹی تک لے کر گئے اور راستے جس سے سامنا ہوتا اس سے لڑتے۔۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا پہلے اپنے ساتھی کو سنبھالو آپ ﷺ کی مراد حضرت طلحہ رضی اللہ تھے جن کا بہت سا خون بہہ گیا تھا۔
احد کے میدان میں آپ کو چوبیس زخم آئے،بعض روایات کے مطابق یہ تعداد پچھتر یا پینتیس تھی۔
حضرت علی رضی اللہ سے روایت ہے کہ میرے دونوں کانوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ طلحہ اور زبیر دونوں جنت میں میرے ہمسایہ ہونگے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ جنگ جمل میں شہید ہوئے،شہادت کے وقت آپ کی عمر چونسٹھ برس تھی بعض روایات میں باسٹھ برس بیان کی گئی ہے۔
جنگ جمل میں آپ رضی اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ کے پاس کھڑے تھے کہ مروان بن الحکم نے آپ پر تیر چلایا جو کہ آپ کی پنڈلی میں لگا،بعض کے مطابق یہ تیر گردن میں لگا۔۔۔اس وقت حضرت طلحہ رضی اللہ یہ کہتے ہوئے شہید ہوئے واللہ یہ وہ تیر ہے جسے اللہ نے بھیجا ہے اے اللہ تو عثمان رضی اللہ کا بدلہ مجھ سے لے لے کہ تو راضی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔تیر کے زخم کے متعلق روایت ہے کہ جب زخم بند کیا جاتا تو پیر پھول جاتا اور جب زخم کھولا جاتا تو خون بہنے لگتا تب حضرت طلحہ رضی اللہ نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہ تیر خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔
یہ واقعہ 10 جمادی الاول 36ہجری کا ہے۔
آپ رضی اللہ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ آپ درمیانے قد کے چوڑے سینے اور چوڑے شانوں والے تھے رنگ گندمی اور خوبصورت
حضرت طلحہ رضی اللہ کا شمار مالدار لوگوں میں ہوتا تھا انتقال کے وقت آپ کے پاس بائیس لاکھ درہم اور تین کروڑ درہم مالیت کی جائیداد تھی۔
روایت میں ہے کہ آپ روزانہ ایک ہزار درہم خیرات کرتے ہر سال دس ہزار درہم حضرت عائشہ رضی اللہ کو بھجواتے۔
شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ نے آپ کو دیکھا تو آپ رضی اللہ کے چہرے سے مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا کہ اے ابو محمد یہ بات مجھ پر بہت شاق ہے کہ میں تجھ کو آسمان کے تاروں کے نیچے خاک آلودہ دیکھوں اور پھر فرمایا کہ اے اللہ میں اپنے برے ارادہ اور برے کام سے تیرے سامنے شکایت کرتا ہوں اور پھر آپ کے لیے دعائے رحمت کی اور کہا کہ کاش میں اس واقعہ سے بیس برس پہلے مر گیا ہوتا اور وہ اور ان کے ساتھی بہت روئے۔۔۔۔
غزوہ احد کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ کو طلحۃ الخیر ،غزوہ تبوک طلحۃ الفیاض اور حنین کے موقع پر طلحۃ الجود کہہ کر پکارا۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں