- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
خاتون جنت
سیدہ فاطمہ الزہراءؓ دختر رسول کریمﷺ
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ روایت کے مطابق آپ کی پیدائش رسول کریم ﷺ کی نبوت سے تقریبًا پانچ برس قبل ہوئی۔
ہجرت مدینہ کے وقت آپ رضی اللہ عنہا بھی مدینہ ہجرت کر آئی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
جب حضرت علی رضی اللہ رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ کے لیے نکاح پیغام لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ خاموش رہے اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ علی تمھارا ذکر کر رہے تھے تو اس پر آپ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں اس کے کچھ دن بعد رسول اللہ ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔بعض روایات کے مطابق جب رسول کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا تو آپ کو جب معلوم ہوا تو آپ رونے لگ پڑیں جب آپ ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺحضرت فاطمہ رضی اللہ کے پاس گئے اور پوچھا کیوں رو رہی ہو جس سے تمھارا نکاح کیا ہے وہ علم میں سب سے زیادہ حلم میں سب سے بہتر اور اسلام قبول کرنے میں سب سے اگے ہے۔
روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح کے پیغام بھیجنے سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نکاح کا پیغام رسول کریمﷺ کی خدمت میں بھیج چکے تھے مگر آپ ﷺ نے انکار کر دیا تھا۔
روایات کے مطابق جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو رسول کریم ﷺ نےفرمایا کتنا مہر دو گے تو حضرت علی رضی اللہ نے عرض کی میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمھاری وہ حطمیہ زرہ کہاں ہے جو میں نے تمھیں تحفے میں تھی تو حضرت علی رضی اللہ نے عرض کی وہ میرے پاس ہے ہے توآپ ﷺنے فرمایا وہی مہر میں دے دو۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ نے وہی زرہ حق مہر میں دے کر نکاح کیا۔روایت کے مطابق اس زرہ کی قیمت چار درہم تھی۔
ایک روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول کریمﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے پانچ ماہ بعد ہوا اور رخصتی غزوہ بدر کے بعد ہوئی۔اور نکاح کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمراٹھارہ برس تھی۔
نکاح کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دولہا کے لیے ولیمہ کرنا ضروری ہے پس اس پر سعد رضی اللہ نے اپنا مینڈھا پیش کیا اور انصار نے کچھ جوار جس سے ولیمہ کیا گیا۔
رسول کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں
تارو ں سے بنی چارپائی ،ایک تکیہ جو چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے ،ایک گھڑا بعض روایات میں دو گھڑے اور ایک پیالہ۔ایک مشکیزے کا ذکر بھی روایات میں آتا ہے۔۔جبکہ دو چکیوں کا بھی جہیز دیے جانےکا ذکر موجود ہے۔
رخصتی کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کے میرے آنے تک کوئی بات مت کرنا
پھر جب رسول کریم ﷺ تشریف لائے تو انھوں نے ایک برتن میں پانی منگوا کر اس میں ہاتھ دھوئے بعض روایات کے مطابق اس میں کلی کی پھر اس میں سے کچھ پانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سینے پر چھڑکا اور کچھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ
کنویں سے پانی کھینچ کھینچ کر میں اپنے سینے میں تکلیف محسوس کرتا ہوں آپ کے والد کے پاس قیدی آئے ہیں آپ ان سے ایک قیدی مانگ لائیں جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ ﷺ نے پوچھا پیاری بچی کیا کام ہے تو آپ کو خادم مانگنے پر شرم محسوس ہوئی اور عرض کیا سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں اور سلام کرکے واپس چلی گئیں۔حضرت علی رضی اللہ کے پوچھنے پر بتایا کہ مجھے سوال کرتے شرم محسوس ہوئی پھر دونوں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت علی رضی اللہ نے عرض کی کہ پانی کھینچ کھینچ کر سینےمیں تکلیف محسوس کرتا ہوں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ چکی پیس پیس کر ہاتھ گھس گئے ہیں آپ ہمیں ایک خادم دے دیں۔
تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اصحاب صفہ کو جو بھوکے سوتے ہیں اور میرے پاس انکے ل لکے کچھ نہیں ہوتا کو چھوڑ کر تمھیں خادم نہیں دے سکتا بلکہ میں یہ غلا م بیچ کر ان کی قیمت اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔اس رات آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ کے گھر پہنچے اورفرمایا کہ کیا میں تمھیں غلام سے بہتر چیز کی خبر نہ دوں پھر آپ ﷺ نے وہ تسبیحات بتائیں جن کو تسبیحات فاطمہ کہا جاتا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سختی سے پیش آتے تھے جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول کریم ﷺ سے شکایت کروں گی چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول کریم ﷺ سے حضرت علی رضی اللہ کی شکایت لگانے کے لیے تشریف لے گئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی پیچھے پیچھے چل دیے اور ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہوگئے جہاں وہ بخوبی بات سن سکیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا پیاری بچی غور سے سن لو اور سمجھ لو کہ کسی ایسی عورت کی جو اپنے شوہر کی مرضی کے مطابق نہ کرے کوئی سرداری نہیں ۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے وہ تمام حرکتیں چھوڑ دیں اور تہیہ کیا کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل کو ٹھیس لگے۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چار بچے پیدا ہوئے جن میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ،حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے رسول کریم ﷺ کو بہت پیار کرتے تھے اور انھیں اپنا بیٹا کہتے تھے اور فرمایا تھا کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے منبر پر فرمایا کہ بنو ہشام بن مغیرہ مجھ سے اجازت مانگ رہے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو علی ابن ابی طالب سے بیاہ دیں آپ ﷺ نے تین بار فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ہاں اس صورت میں کہ علی میری بیٹی کو طلاق دے دے کیونکہ فاطمہ میرے جگرکا ٹکڑا ہے جس چیز سے اسے آرام ملتا ہے مجھے آرام ملتا ہے اور جس چیز سے سے تکلیف پہنچتی ہے مجھے تکلیف پہنچتی ہے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ اپنے اہل عیال میں سے سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے تھے تو آپ نے جواب دیا فاطمہ سے پھر سوال کیا گیا اور مردوں میں تو جواب دیا علی سے۔۔۔۔
رسول کریم ﷺ جب بھی سفر سے واپس آتے تو خاتون جنت سے ملتے اور انھیں بوسہ دیتے۔
اک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت کے مابین کچھ رنجش ہو گئی آپ ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے کچھ دیر بعد جب آپ ﷺ واپس آئے تو صحابہ کرام نے عرض کی ا رسول اللہ ﷺ جب آپ گئے تھے تو کافی رنجیدہ تھے اور جب آپ ﷺ نکلے ہیں تو آپ ﷺ کا چہرہ شگفتہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہ میں نے ان دو شخصوں ميں جو مجھے سب سے زیادہ پیارے ہین صلح کرا دی ہے۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں فاطمہ آئیں گويا آپ کی چال رسول کریم ﷺ کی چال کی سی تھی آپ ﷺنے فرمایا آؤ مرحبا اور پھر آپ ﷺ نے ان کے دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا اور ان کے کان ميں کچھ کہا جس پر آپ رو پڑیں پھر کچھ کان میں کہا جس پرآپ ہنس پڑیں۔۔
بعد میں خاتون جنت رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول کریم ﷺ نے پہلی بار فرمایا تھا کہ ہر سال جبرائیل علیہ السلام ایک بار میرے سامنے قران پڑھا کرتے تھے اس بار دو مرتبہ پڑھا ہے میرا خیال ہے میرا وصال قریب آگیا ہے اور میں تمھارے لیے بہترین راہ ہموار کرنےوالا ہوں اور میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی یہ سن کر میں رو دی۔پھر آپ ﷺ نے مجھے جنت میں خواتین کی سرداری کا بتایا تو میں ہنس دی۔
رسول کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ رضی اللہ عنہا بہت اداس رہتی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ کسی نے آپ رضی اللہ عنہا کو ہنستے نہیں دیکھا۔
رسول کریم ﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد آپ رضی اللہ عنہا نے 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو وفات پائی۔
کچھ روایات میں چھماہ کی بجائے تین ماہ کا عرصہ بھی بتایا گیا ہے۔۔لیکن چھ ماہ کے عرصے کو صحیح تسلیم کا جاتا ہے۔
وفات کے وقت آپ کی عمر 29برس کے قریب تھی۔
حضرت علی رضی اللہ اور حذرت اسماء نے آپ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا ۔
آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے متعلق تین روایات ہےکچھ کے مطابق آپ کی نماز جنازہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ،کچھ کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے اور کچھ کے نزدیک حضرت عباس رضی اللہ نے۔آپ کی وصیت کے مطابق تدفین کا عمل رات کے وقت کیا گیا۔
ایک روایت کے مطابق وفات کے دن خاتون جنت رضی اللہ عنہا نے خود غسل کیا اور نئے کپڑے پہنےاور کہا کہ انھیں غسل نہ دیا جائے بلکہ اسی حالت میں تدفین کی جائے۔۔
احادیث میں آپ کا ذکر
فاطمہ اہل جنت خواتین کی سردار ہیں۔
تمھاری تقلید کے لیے تمام دنیاکی عورتوں میں مریم،خدیجہ ،فاطمہ اور آسیہ کافی ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا
فاطمہ خواتین امت کی سردار ہیں۔
فاطمہ سیدۃ النساء العالمین ہیں۔
فاطمہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔
سیدۃ النساء العالمین،بتول اور الزھرا آپ رضی اللہ عنہا کے مشہور لقب ہیں۔
ام الحسنین آپ رضی اللہ کی کنیت مشہور ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں