Featured post

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ ‏عنہ

تذکرہ صحابہ کرام

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 


حضرت عبدالرحمن بن عوف بن عبدعوف بن عبد بن حارث بن زہرہ بن کلاب ۔آپ کی کنیت ابو محمد تھی ۔زمانہ جاہلیت میں آپکا نام عبد عمرو تھا۔
رسول کریم ﷺ نے آپ کا نام عبدالرحمن رکھا۔آپ رضی اللہ رسول کریم ﷺ کے دار ارقم میں قیام سے قبل ایمان لائے تھے۔آپ کا شمار پہلے آٹھ ایمان لانے والوں میں ہوتا ہے ۔
آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں،
آپ نے تمام غزوات میں شمولیت کی ،احد کے میدان ميں آپ کو اکتیس زخم آئے اور پاؤں پر زخم آنے کی وجہ سے آپ لنگڑا کر چلتے تھے۔غزوہ احد میں ہی آپ کے سامنے کے دو دانت شہید ہو گئے تھے۔
آپ رضی اللہ نے حبشہ اور مدینے دونوں ہجرتیں کیں۔مدینہ کو ہجرت کے بعد آپ میں اور سعد بن الربیع کے درمیان عقد  مواخاۃ ہوا۔۔سعد بن الربیع نے آپ رضی اللہ کے سامنے اپنا مال پیش کیا کہ یہ میرا مال ہے جسے ہم تقسیم کر لیتے ہیں اور میری دو بیویاں ہیں جن ميں سے ایک سے میں آپ کے حق میں دستبردار ہوجاتا ہوں۔آپ رضی اللہ نے جواب دیا کہ  اللہ تمھارے لیے برکت کرے  مجھے صبح کے وقت بازار کا راستہ دکھا دینا ۔روایت ہے کہ آپ نے اگلے دن گھی اور پنیر کی تجارت شروع کردی جس میں آپ کو بہت منافع ہوا۔
تجارت میں ان کو اس قدر منافع ہوا کہ ایک بار ان کے اناج سے لدے سات سو اونٹ مدینے میں آئے تو مدینہ والوں کو ان اونٹوں کےچلنے کی گونج سنائی دی  تو حضرت عائشہ رضی اللہ کے دریافت کرنے پر انھیں بتایا گیا کہ یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے مال سے لدے اونٹوں کا قافلہ ہے جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ نے فرمایا کہ ميں نے رسول کریم ﷺ سے سنا تھا کہ عبدالرحمن گھسٹتے ہوئے جنت میں جائیں گے
یہ بات جب آپ تک پہنچی تو آپ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی اے ماں میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ سب مال اللہ کی راہ میں وقف ہے۔۔
غزوہ تبوک کے موقعے پر آپ رضی اللہ نے نماز کی امامت فرمائی اور رسول کریم ﷺ نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی اور فرمایا کہ کسی نبی کی اس وقت تک ہرگز وفات نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی امت کے مرد صالح کے پیچھے نماز نہ پڑھ لے
حضرت عبدالرحمن بن عوف  بیماری کی وجہ سے ریشمی لباس پہنا کرتے تھے اور اس بات کی اجازت انھوں نے نبی کریم ﷺ  سے لی تھی۔روایت ہے کہ آپ جو چادر یا جوڑا پہنتے تھے اس کی قیمت چار پانچ سو دینار  ہوتی تھی۔
سنہ چھ ہجری میں رسول کریم  ﷺ نے آپ کو سات سو آدمیوں کے ہمراہ دومتہ الجندل بھیجا آپﷺ نے ان کا عمامہ اپنے ہاتھوں سے کھول ڈالا اور دوسرا سیاہ عمامہ باندھا اور فرمایا کہ ایسے عمامہ باندھا کرو۔۔
رسول کریم ﷺ نے ایک بار آپ رضی اللہ سے فرمایا کہ اے ابن عوف تم امیروں میں سے ہو اور جنت میں بغیر تھکے ہر گز داخل نہ ہو سکو گے اس لیے اللہ کو قرض دو کہ وہ تمھارے لیے تمھارے قدموں کو چھوڑ دے  آپ رضی اللہ نے پوچھا کہ اللہ کو کیا قرض دوں آپ ﷺ نے فرمایا شام کو جو کچھ چھوڑا اس میں سے شروع کرو عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اس تمام مال سے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ۔۔آپ اس بات کا ارادہ کر کے نکلے تو آپ ﷺ نے انھیں بلا بھیجا اور فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا  ہے کہ ابن عوف کو حکم دیجیے کہ وہ مہمان کی ضیافت کریں ،مسکین کو کھانا کھلائیں سائل کو دیا کریں اور ان کے ساتھ شروع کریں جو ان کے عیال ہیں جب وہ ایسا کریں گے تو یہ ان کے عیب پاک کرنے والا ہوگا۔
آپ رضی اللہ مجلس شوری کے رکن بھی تھے۔جو حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے بعد خلافت کے انتخاب کے لیے بنائی تھی۔
سنہ 13 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ جب خلیفہ بنے  تو آپ رضی اللہ نے اس سال حج کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کو امیر بنا کر بھیجا انھوں نے لوگوں کو حج کروایا۔
آپ رضی اللہ کی وفات 32 ہجری میں پچھتر سال کی عمر میں ہوئی۔

آپ کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے وصیت میں پچاس ہزار دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی
آپ کی چار بیویاں تھيں اور انھيں ترکے میں سے آٹھویں حصے کے حساب سے اسی اسی ہزار درہم ملے۔
ایک ہزار  اونٹ تین ہزار بکریاں سو گھوڑے
اور سونا اتنا تھا کہ جو کلہاڑیوں سے کاٹا گیا  اور ایسا کرتے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔
آپ رضی اللہ غزوہ بدر میں جو لوگ شریک تھے اور شہید نہیں ہوئے تھے ان سب کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی اور یہ تعداد سو تھی۔
ایک ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔

ایک بار ان کے حصے میں کچھ مال آیا جس کی مالیت چالیس ہزار دینار تھی آپ رضی اللہ نے وہ فروخت کرکے وہ  رقم امہات المومنین میں تقسیم کردی۔

آپ رضی اللہ کا حلیہ کچھ ایسا بیان کیا جاتا ہے کہ سرخ سفید رنگت،لمبے اور خوبصورت،سینہ ابھرا ہوا اور بال شانوں تک ،فراخ چشم اور پلکییں بڑی اور زیادہ۔۔۔

آپ رضی اللہ کی وفات کے وقت حضرت علی رضی اللہ نے فرمایا  اے عبدالرحمن جاؤ بے شک تم نے اچھا زمانہ پایا اور فتنہ سے پہلے چل دیے۔

نبی ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے  کہ عبدالرحمن اہل آسمان میں امانت دار ہیں اور اہل زمین میں امانت دار ہیں

تبصرے