- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تذکرہ صحابہ کرام
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ۔
حضرت صہیب کے والد سنان بن مالک یا ان کے چچا کسری کی جانب سے الابلہ کے عامل تھے۔۔
ان کے گاؤں پر جو کہ فرات کے ساحل پر موصل سے متصل تھا رومیوں نے ڈاکا ڈالا اور حضرت صہیب جو اس وقت بچے تھے ان کو قید کر کے لے گئے۔۔
کچھ عرصے بعد رومیوں سے کلب نے خرید لیا اور نھیں مکہ لے آئے۔۔
اور یہاں پر انھیں عبداللہ بن جدعان التیمی نے خرید کر آذاد کر دیا۔۔آپ عبداللہ بن جدعان کے مرنے تک مکہ میں ہی مقیم رہے۔۔
حضرت صہیب رضی اللہ تعالی خوب سرخ آدمی تھے نہ بہت زیادہ لمبے نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے۔۔۔سر کے بال بہت زیادہ تھے اور مہندی کا خزاب لگاتے تھے۔۔۔
محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ صہیب رضی اللہ عرب میں سے النمر ابن قاسط کے خاندان سے تھے۔۔۔۔۔
عمار بن یاسر رضی اللہ سے مروی ہے کہ ان کی ملاقات حضرت صہیب رضی اللہ تعالی سے دار ارقم کے دروازے پر ہوئی میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو تو میں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ محمد صلی الله علیه وسلم کے پاس جاؤں اور ان کا کلام سنوں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں تو پھر ہم دونوں اندر رسول کریم صلی الله علیه وسلم کے پاس چلے گئے اور اسلام قبول کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ اور حضرت صہیب رضی اللہ کا قبول اسلام تیس سے زائد آدمیوں کے بعد ہوا۔۔۔۔۔۔
آپ رضی اللہ تعالی نے جب مدینے کی طرف ہجرت کی تو قریش کے لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور آپ اپنا سارا مال ان کے حوالے کر کے مدینےآ گئے
عمر بن الحکم سے مروی ہے کہ صہیب رسول کریم صلی الله علیه وسلم کے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ صلی الله علیه وسلم قبا میں
تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی بھی موجود تھے اور پاس کھجوریں رکھی تھیں راستے میں حضرت صہیب رضی اللہ کی آنکھ دکھنے لگی اور سخت بھوک کے عالم میں وہ کھجوریں کھانے لگ گئے۔۔تو حضرت عمر رضی اللہ نے کہا یا رسول اللہ صلی الله علیه وسلم آپ صہیب کو نہیں دیکھتے یہ کھجوریں کھا رہے ہیں حالانکہ ان کی آنکھ دکھتی ہے۔ تو رسول اللہ صلی الله علیه وسلم
نے فرمایاتم کھجوریں کھاتے ہو تمھاری تو آنکھ دکھتی ہے تو حضرت صہیب رضی اللہ نے جواب دیا کہ میں تو ٹھیک آنکھ کی طرف سے کھاتا ہوں تو رسول کریم صلی الله علیه وسلم مسکرا دیے۔۔۔۔
حضرت صہیب رضی اللہ نےحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ سے کہاکہنے لگے کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے ساتھ لیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا۔۔مجھے راستے میں قریش نے پکڑ کر قید کر لیا تھا میں نے اپنی جان اور گھر والوں کو اپنے مال کے عوض خریدا ۔۔رسول کریم صلی الله علیه وسلمنے فرمایا کہ بیع نے نفع دیا۔۔۔۔اس موقعہ پر قران مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ترجمہ۔۔اور بعض وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو فروخت کر ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت مہربان ہے۔
حضرت صہیب رضی اللہ بہت اچھے تیر انداز تھے۔۔
حضرت عمر رضی اللہ کی وفات کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ نے امامت کے فرائض انجام دیے۔۔۔۔
حضرت صہیب رضی اللہ کی وفات شوال 38 ہجری میں ہوئی اور وفات کے وقت آپ کی عمر ستر برس تھی۔۔اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔۔۔۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں