- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ہائیپشیا۔ Hypatia۔
زمانے کی خاتون ریاضی دانوں میں سب سے زیادہ شہرت ہائیپشیا کو حاصل ہوئی۔ ہائیپشیا کو بعض جگہ
آئی پازیا بھی لکھا جاتا ہے۔
ہائیپشیا کی پیدائش 350 ء کے لگ بھگ کے زمانے میں ہوئی ۔بعض محققین کی رائے میں اس کی پیدائش کا سال 370ء ہے۔ ہائیپشیا کے باپ کا نام تھیون تھا جو مصر کے شہر سکندریہ کا رہائشی تھا اور ایک قابل اور مشہور ریاضی دان تھا۔تھیون سکندریہ کے مشہور اور مرکزی عجائب گھر کے ساتھ وابستہ تھا۔۔۔اور یہ عجائب گھر اس وقت ایک ثقافتی اور سائنسی تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔اس میوزیم کو اگر ایک یونیورسٹی کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔اور اس دور میں پوری رومن سلطنت سے طلباء اور فلاسفر یہاں تعلیم حاصل کرنے اور لیکچرز سننے آتے تھے۔۔۔
ہائیپشیا نے ریاضی اور فلکیات کی تعلیم اپنے باپ تھیون سے حاصل کی تھی۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہائیپشیا سکندریہ کے ایک سکول میں استاد کی حیثیت سے تعلیم دینے لگ گئی۔وہ طلباء کو فلکیات اور افلاطون کے فلسفہ کی تعلیم دیتی تھی۔
400ء میں ہائیپشیا اسی سکول کی ڈائریکٹر منتخب ہو گئی۔
اس کے مذہبی عقائد ،اس کا تعلیم دینا اور اس کے نظریات ہی مستقبل میں اس کی دردناک موت کا باعث بنے۔
ہائیپشیا نے ریاضی،فلکیات اور فلسفہ پر کتب تحریر کیں۔اور ان کتب میں اس نے ریاضی اور فلسفہ کے بہت سے نظریات پر تنقید بھی کی۔
اس نے سیاروں کی حرکت ،نمبر تھیوری پر بھی مضامین تحریر کیے
اس کی اس دور سے بہت سکالرز کے ساتھ خط وکتابت اس کی ذہنی صلاحیت اور اعلی قابلیت کو ظاہر کرتی ہے اس خط و کتابت کے نمونے اب بھی محفوظ ہیں۔
اس دور کی محفوظ تحریروں اور نمونوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کیسے ہائے پاسیا نے کیسے ایک آلے کی ایجاد میں مدد کی جو کہ سورج اور ستاروں کی درست پوزیشن معلوم کرنے کے لیے قدیم یونان میں استعمال ہوتا رہا۔یہ آلہ اس دور میں ایک سکالر سائنیسیز synesius نے ایجاد کیا تھا جو کہ اس کے لیکچرز سے مستفید ہوتا رہا تھا۔سائینسیز کا ہائیپشیا کو لکھا گیا خط اب بھی موجود ہے جس میں وہ اس آلہ کو بنانے کے لیے ہائیپشیا سے اس کی رائے اور مدد طلب کر رہا ہے۔اس کے علاوہ سائنیسیز نے کی مدد سے ایک ہائیڈرو میٹر اور ہائیڈرو سکوپ بھی تیار کی تھی۔۔
ہائیپشیا کی شہرت علم دوست طبقے میں پھیل چکی تھی اور اس کے لیکچرز سننے کے لیے لوگ اردگرد سے آنے لگے تھے۔ ہائیپشیا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ فلسفیوں کا لباس زیب تن کرتی تھی اور مردوں کی طرح بحث مباحثوں میں حصہ لیتی تھی،اور وہ اپنی گھوڑا گاڑی خود چلاتی تھی۔اس کے انھیں خواص کی بناء پر سکندریہ کے سیاسی حلقوں میں اس کی پہچان اور تعلقات قائم ہونا شروع ہو گئے۔۔اسکندریہ کے رومن گورنر اوریسٹس سے بھی اس کے خوشگوار تعلقات تھے۔۔اور یہی تعلقات اس کے لیے آگے جا کر خطرناک بھی ثابت ہوئے۔۔
اوریسٹس orestes جو کہ رومن گورنر تھا اور مذہبی عقیدے کی بناء پر بت پرست تھا اور سیرل جو کہ اسکندریہ کے چرچ کا سربراہ تھا ۔اور ان دو افراد میں اختیارات کی جنگ جاری تھی جسے مذہبی رنگ بھی دیا جاتا تھا۔
ہائے پاسیا کے مذہبی عقائد بھی بت پرستی یا افلاطونی فلسفے پر تھے اور عیسائیت کے برعکس تھے۔اسی بناء پر عیسائی حلقوں میں اسے شیطان کی پیروکار کہا جاتا تھا۔۔
ان دو صاحب اختیار افراد کی لڑائی میں شدت آنے کے بعد ہائیپشیا سیرل اور اس کے عیسائی حامیوں کے لیے ایک آسان ٹارگٹ بن گئی کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ اوریسٹس اس کے مشوروں پر عمل کر رہا ہے۔۔
بلآخر 415ءیا 416ء کا وہ دن آن پہنچا جب مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ایک زبردست دماغ جو کہ سائنس اور فلسفے میں مہارت رکھتا تھا دردناک انجام کو پہنچا۔۔
ہائیپشیا اپنی گھوڑا گاڑی پر جا رہی تھی کہ اسے عیسائیوں کے ایک جتھے نے گھیر لیا جس کی قیادت پیٹر ڈی لیکٹر کر رہا تھا۔
ہائیپشیا کو اس کی گھوڑا گاڑی سے نیچے گھسیٹ لیا گیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے چرچ لے جایا گیا جہاں اسے برہنہ کر کے مارا پیٹا گیا اور پھر سنگسار کر دیا گیا۔اور اس کے بعد اس کی کچلی ہوئی لاش کو جلا دیا گیا۔۔
ہائیپشیا کا ایک عورت ہونا جرم ٹھہرا۔۔
یا پھر اس کا علم اس کی موت کا باعث بنا۔۔موت کے وقت ہائے پاسیا کی عمر 45سال کے قریب تھی۔
اس کی موت کے بعد اس کے طلباء یونان کے شہر ایتھنز چلے گئے۔اسکندریہ میں ہائیپشیا کا سکول مسلمانوں کی 642 ء میں اسکندریہ کو فتح کرنے کے دور تک کام کرتا رہا تھا۔
جب رومن دور میں اسکندریہ کی لائبریری کو آ گ لگی تو ہائیپشیا کا لکھا ہوا تمام کام اس آگ کی نذر ہو گیاتھا۔موجودہ دور میں ہائیپشیا کے کام کی بابت اس کی دوسرے سکالرز سے خط و کتابت سے علم ہوتا ہے یا پھر اس دور کے یا اس دور کے بعد کے سکالرز کی تحریروں سے جنھوں نے ہائیپشیا کے کام کو نقل کیا ہے۔۔
محققین کے مطابق اسکندریہ جو کئی سو سالوں سے علم و ادب کا مرکز چلا آ رہا تھا ہائیپشیا کی دردناک موت کے بعد اسکندریہ کا یہ دور بھی اختتام کو پہنچا۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں