Featured post

نینوا Nineveh

نینوا 

موجودہ عراق کا قدیم تاریخی شہر  نینوا جو ایک وقت میں دنیا کا سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر  کہلاتا تھا۔۔دریائے دجلہ کے کنارے واقع اس شہر کی تاریخ  6000 قبل مسیح پرانی ہے جب یہاں پہلی آبادی قائم ہوئی۔۔ 
نینوا کا شمار آسیری دور حکومت  کے اہم شہروں میں ہوتا تھا اور ایک وقت میں یہ اس سلطنت کا مرکز بھی رہا تھا۔   
2000 قبل مسیح کے قریب کے زمانے میں نینوا  دیوی ایشتار  کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ 
نینوا  شہر کی تاریخ میں اہم  دور  کا آغاز بادشاہ سارگون  کے دور سے ہوتا ہے جب سارگون نے نینوا اور اس کے گرد و نواح  پر قبضہ کر کے   ان علاقوں  کو سلطنت اکاد کا حصہ بنایا۔سارگون ہی وہ بادشاہ تھا جس نے اکاد سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اور یہ دور 2300 قبل مسیح کے قریب کا دور  ہے۔ 
سارگون نے ہی یہاں اشتار سے منسوب سب سے پہلا معبد تعمیر کروایا تھا۔ 
سلطنت اکاد کے زوال کے بعد  نینوا مختلف بادشاہوں کے زیر تسلط رہا جن میں عموری آسیری  بادشاہ قابل ذکر ہیں۔۔ 
اٹھارویں صدی قبل مسیح میں نینوا پر   بابل کے بادشاہ حمورابی نے قبضہ کر لیا  جو کہ اس کی موت تک رہا۔حمورابی  کی موت کے بعد نینوا اک بار پھر سے  آسیری سلطنت کے قبضے میں چلا گیا۔۔ 
تیرہویں صدی قبل مسیح میں  آسیری بادشاہ شالمینیسر نے یہاں  اپنا محل اور   ایک عبادت گاہ تعمیر کروائی۔۔اسی بادشاہ کے دور میں نینوا کی تعمیر کے نئے دور کا آغاز ہوا۔۔اسی کے دور میں شہر کے گرد پہلی بار حفاظتی دیواریا فصیل بھی تعمیر کی گئی۔۔ 
نینوا کی تاریخ کے  نئے دور کا آغاز آٹھویں صدی قبل مسیح میں ہوا جب  سنخاریب نامی بادشاہ  تخت نشین ہوا اس نے نینوا کو  اپنی سلطنت کا مرکز بنایا اور اس شہر میں اپنا محل تعمیر کروایا۔۔۔اس کے دور حکومت میں نینوا  ایک بہت بڑے شہر میں تبدیل ہو گیا تھا۔۔اس دور میں  شہر کو پانی کی سپلائی اور  زراعت کے لیے  نہریں بنائی گئیں۔شہر میں وہ سب تعمیرات کروائی گئیں جس سے یہ شہر دنیا کي نگاہوں کا مرکز بن سکتا تھا۔۔ایک اندازے کے مطابق  اس دور میں نینوا کی آبادی ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار تک تھی۔ 

یہ دور نا صرف نینوا کی تاریخ کا نیا دور کہلاتا ہے بلکہ  آسیری دور حکومت  کا بھی نیا دور کہلاتا ہے۔۔ 
سنخاریب  کا دور تعمیری  لحاظ   سے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے مگر اس کے بعد  آنے والا بادشاہ   نا صرف تعمیرات کا شوق رکھتا تھا بلکہ وہ علم وادب کا اعلی ذوق بھی رکھتا تھا۔۔ 
آشور بنی پال  جو کہ  سنخاریب کے بعد  تخت نشین ہوا  اس کا دور حکومت  667 قبل مسیح سے 627 قبل مسیح  کے  عرصہ پر محیط تھا۔ 
آشور بنی پال کے دور کی سب سے خاص بات اس کا ایک لائبریری تعمیر کروانا تھا  جسے انسانی تاریخ کی سب سے پہلی اور قدیم لائبریری بھی تصور کیا جاتا ہے اس دور میں اس لائبریری  میں 30000 سےزائد مٹی کی تختیوں پر موجود تحریریں موجود تھیں اور یہ تحریریں اس دور کے علوم پر تھیں۔۔۔ 

آشور بنی پال کے دور حکومت کے بعد آسیری  سلطنت کا بھی خاتوہ ہو گیا اور نینوا کا عروج بھی زوال میں بدل گیا جب  612 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ   نے نینوا پر حملہ کر کے اسے تباہ برباد کر دیا۔۔ 
پندرہویں صدی عیسوی تک  نینوا  شہر میں آبادی موجود  تھی مگر اس کے بعد نینوا کے اب صرف کھنڈرات ہی باقی ہیں۔۔۔جہاں کچھ عرصہ پہلے تک داعش کے دہشت گردوں کا قبضہ تھا اور ان کی ظلم و بربریت کا نشانہ یہ کھنڈرات بھی بنتے رہے۔۔ 

ایک اندازے کے مطابق نینوا کا رقبہ 700 ہیکٹر  تھا اور اس کے گرد دیوار یا فصیل کی لمبائی کا اندازہ 12 کلومیٹر ہے جس ميں پندرہ دروازے تھے اور ہر دروازے کا نام دیوی یا دیوتا سے منسوب تھا ..کچھ دروازوں کے نام یہ ہيں  
ماشکی دروازہ۔۔پانی والا دروازہ  ایک روایت یا اندازے کے مطابق

اداد دروازہ۔۔یہ دروازہ دیوتا اداد کے نام پر ہے۔ 

شمس دروازہ ۔۔یہ دروازہ سورج کے نام پر ہے۔۔ 

نیرگل دروازہ۔۔اس دروازے کا نام دیوتا نیرگل کے نام پر ہے۔ 

حازی دروازہ 

۔۔ نہروں کی لمبائی 95 کلومیٹر بنتی ہے جو پانی کے لیے کھودی گئیں تھيں۔۔ 
کھدائی کے بعد سنخاریب کا محل جو دریافت ہوا  80 کمروں  پر مشتمل ہے اور اس محل کی لمبائی 1680فٹ اور چوڑائی 810 فٹ ہے۔۔ 

موصل پر قبضے کے دوران داعش کے دہشت گردوں نے ان دیواروں اور دروازوں کے ساتھ بہت سے اور  عمارتوں کو تباہ کر دیا تھا۔۔۔ 









تبصرے