- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
قوم عاد کا شہر اوبار
قوم عاد جس کی طرف حضرت ہود علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے مگر انھوں نے خدا کا انکار کیا اور سرکشی میں اس حد تک بڑھ گئے کہ پھر دردناک عذاب ہی ان کا مقدر ٹھہرا۔۔
روایات کے مطابق بائبل میں حضرت ہود علیہ السلام کو عبر کہا گیا ہے۔جو کہ حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے تھے۔۔
عبر ولد سلح ولد ارفکسد ولد سم ولد نوح علیہ السلام
حضرت ہود کا مزار یمن میں حضر الموت کے علاقے میں ہے۔۔
بات ہو رہی تھی قوم عاد کی۔۔۔
قوم عاد جو اپنی سرکشی کی وجہ سے خدا کے عذاب کی حقدار ٹھہری
عاد بھی حضرت نوح علیہ کے پڑپوتے کا نام تھا شجرہ نسب کچھ ایسے ہے
عاد بن عوض بن ارام بن سم بن نوح علیہ السلام
عاد کے دو بیٹے تھے شداد اور شدید
ارام یا ارم اس قوم کے مرکز کا نام تھا۔۔
قران مجید میں اسی شہر کو ارم ستونوں والا شہر کہآگیا ہے ستونوں والی اصطلاح کی وجہ اس شہر میں بہت سے ستونوں کی تعمیرتھی جو کہ اس کی پہچان تھے۔۔
۔عذاب کے بعد یہ شہر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور ہزاروں سال صرف اس کا ذکر ہوتا رہا بہت سے محققین اس شہر کی تلاش میں دلچسپی لیتے رہے ۔۔۔
پھر 1992 میں 5000 سال پرانے اس شہر کو دریافت کرنے کا دعوی سامنے آیا کہ امریکی سپیس سینٹر اور سیٹیلائیٹ کی مدد سے ایک قدیم شہر کی نشاندہی ہوئی ہے جو کہ ریت کی نذر ہو چکا ہے۔۔
اس شہر کو اوبار،وبار یا شیسر کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔اسے ریت کے اٹلانٹس کا بھی نام دیا گیا۔۔
یہ شہر کے کھنڈرات اومان کے شہر ظفار میں تلاش کیے گئے۔اور یہ علاقہ صحرا ربع الخالی کا حصہ ہے۔۔
اس شہر میں کھدائی کے بعد ایک قلعہ نما عمارت کے کھنڈرات ملے تھے جو زمین میں دھنس چکی تھی اور اس کے دھنسنے کی وجہ محققین اس چٹان کا ٹوٹ جانا بتاتے ہیں جس پر یہ تعمیر کی گئی تھی۔۔
قلعہ نما عمارت کے گرد آٹھ دیواريں تھیں جن میں سے ہر ایک ک موٹائی دو فٹ اور اونچائی دس سے بارہ فٹ تھی۔۔ہر دیوار کی لمبائی ساٹھ فٹ کے قریب تھی۔
اس عمارت کے گرد آٹھ مینار نما تعمیرات تھیں جنہیں بعض لوگ محافظوں کی چوکیاں بیان کرتے ہیں۔ان میناروں کی بلندی تیس فٹ اور چوڑائی کا اندازہ دس فٹ کے قریب ہے۔
اس شہر کو میناروں والا ارم ثابت کرنے کا ایک ثبوت یہ مینار بھی ہیں۔۔
اوبار اس وقت کے تجارتی راستے پر واقع تھا اور تجارت کا مرکز بھی خیال کیا جاتا ہے۔۔
اس شہر کی تعمیر کا زمانہ پانچ ہزار سال پراناخیال کیا جاتا ہے۔۔
ا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں