Featured post

Fatima al fihri فاطمہ الفہری


فاطمہ الفہری

عورت کو آج کل کے جدید دور میں بھی کمزور تصور کیا جاتا ہے اور بہت سے معاشروں میں اب بھی یہ تصور کرنا مشکل امر ہے کہ عورت بذات خود اکیلے کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے۔آج سے 1200 سال قبل یہ سوچنا اور کرنا اور بھی مشکل امر تھا۔۔۔۔
اسی دور کی ایک  خاتون جس نے اوپر نیچے اپنوں کی جدائی کا غم سہا ۔۔اور دنیا میں سوائے ایک بہن کے علاوہ اس کا اور کوئی نہیں تھا  ان حالات میں اس نے  ایک ایسا  کارنامہ سر انجام دیاجس کی تعریف اور داد آج تک مل رہی ہے۔۔۔۔
یہ ذکر ہے فاطمہ الفہری کا جن کے  والد،شوہر اور بھائی کا اوپر تلے انتقال ہو ا اور  ان کا اپنی ایک بہن کے سوا اس دنیا میں اور کوئی نہ رہا۔۔۔اور انھوں نے اپنی بہن کےساتھ مل کر ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جو کہ آج تک کام کر رہی ہے۔۔
۔
فاطمہ الفہری کی پیدائش 800ء کےقریب کے زمانہ میں ہوئی ۔ان کے والد کا نام محمد الفہری تھا۔محمد الفہری نے قرویین جو کہ موجودہ زمانے میں تیونس کے علاقے کو کہا جاتا ہے  سے فاس کی طرف ہجرت کی جو موجودہ زمانے میں مراکش کا شہر ہے۔ اس دور میں فاس کا شہر مسلم دنیا میں علم و ادب اور ثقافت کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔
محمد الفہری جو کہ پیشے سے اعتبار سے ایک تاجر تھے ۔ان کے کاروبار میں فاس  آنے کے بعد خوب ترقی ہوئی اور ان کا شمار دولتمندوں میں ہونے لگا۔۔محمد الفہری کی دو بیٹیاں تھیں جن کے نام فاطمہ اور مریم تھے۔انھوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو   اس دورکے حساب سے بہترین تعلیم دلوائی۔
محمد الفہری کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد فاطمہ کے بھائی کی وفات ہو گئی اور ابھی وہ باپ اور بھائی کی موت کے صدمے سے سنبھلی نہیں تھیں کہ ان کے شوہر کی بھی وفات ہو گئی۔اور دونوں بہنیں اکیلی رہ گئیں۔
ان صدمات کے بعد دونوں بہنوں نے بجائے ہمت ہارنے کے کچھ کرنے کا عہد کیا۔
فاطمہ اور ان کی بہن مریم کو وراثت میں کافی دولت ملی تھی۔انھوں نے اس دولت کو لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ بنایا۔
اس دور میں مسلمانوں کی تعداد کے برعکس مساجد کی تعداد کم تھی اور  یہی وجہ تھی کہ فاس کی مسجد میں نمازیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے جگہ کم پڑ جاتی تھی۔
فاطمہ کی بہن مریم نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جامع مسجد اندلس کی تعمیر کروائی۔اور اس مسجد کی تعمیر  کا مقصد سپین سے ہجرت کر کے آنیوالے مسلمانوں کے لیے نماز کی جگہ کا انتظام تھا۔اس مسجد کی تعمیر 859 ء میں ہوئی۔

فاطمہ الفہری نے مسجد القرویین کی تعمیر کروائی اور یہ مسجد شمالی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد تھی۔اس مسجد کی تعمیر کی خاص بات اس مسجد کے چاردیواری میں ایک بڑی یونیورسٹی کا قیام تھا۔اور یہ یونیورسٹی آج بھی کام کر رہی ہے۔۔مؤرخین اس اس یونیورسٹی کو  سب سے پرانی یونیورسٹی قرار دیتے ہیں جو ابھی تک اپنا کام جاری رکھے ہے۔اور اس یونیورسٹی کی خاص بات کے یہ شروع سے اب تک اعلی تعلیم کی ڈگری جاری کرنا ہے۔۔

القرویین  یونیورسٹی نے 861ء میں اپنے کام کا آغاز کیا اور اسےےدنیا کے ایسے پہلے ادارے کا اعزاز حاصل ہے جو تعلیمی اسناد جاری  کرتا  ہے۔
1300ء میں اس یونیورسٹی میں لائبریری کی تعمیر کی گئی ۔اور اس میں قائم شدہ لائبریری  بھی دنیا کی قدیم لائبریروں میں شامل ہوتی ہے۔اس لائبریری میں 4000 سے زائد قلمی نسخے موجود ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق نویں صدی سے ہے۔انھیں نسخوں میں ایک نسخہ احاديث کا ہے جسے سب سے پرانا نسخہ خیال کیا جاتا ہے۔موتا امام مالک کا نسخہ ،ابن خلدون کی کتاب کتاب العبر  کا اصلی نسخہ، بھی اس لائبریری میں محفوظ ہیں۔۔۔
جامعہ القرویین میں  قران،حدیث،فقہ،قانون،فلکیات،میڈیسنز،ریاضی،کیمسٹری،تاریخ اور عربی گرائمر کی تعلیم دی جاتی تھی۔
بہت سے مشہور اور نامور فلاسفر،تاریخ دان اور سائنسدان اسی ادارے سےفارغ التحصیل تھے۔اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل یورپی طالب علم گربرٹ  جو بعد میں پوپ سلویسٹر دوئم کے نام سے مشہور ہوئے۔یہی تھے جنھوں نے یورپ میں زیرو کے ہندسے کو متعارف کروایا۔۔اور بہت سے اور عربی ہندسے بھی بھی متعارف کروائے ۔۔مشہور یہودی فلاسفر ،طبیب ،ماہر فلکیات موسی بن میمون بھی اسی  جامعہ سے پڑھے ہوئے تھے۔۔
اس کے علاوہ مشہور تاریخ دان ابن خلدون،مشہور فلاسفر ابن رشد،اور بہت سے نامور عالم اس جامعہ سے فارغ التحصیل تھے جن میں ابو العباس،ابن العربی اور ال بیتروجی جیسا فلکیات دان بھی شامل ہیں۔۔حسن ابن محمد الوزان جسے یورپ میں لیو افریقانس کے نام سے جانا جاتا ہے اس جامعہ کےطالب علم رہے۔۔
۔۔
فاطمہ الفہری کا کردار مسلمان  خواتین کے لیے ایک اعلی مثال کا حامل ہے ۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ نام نہاد مغربی لوگوں کے اس پروپیگنڈہ کا بھی جواب ہے جو اسلام پر خواتین کے حقوق غضب کرنے کا الزام لگاتے ہيں۔۔یہ ایک اسلامی ملک کی مسلمان خاتون ہی تھی جس کی بدولت یورپ میں علم اور ادب کا راستہ کھلا۔۔جس زمانے میں یورپ کی عورت کیا مرد بھی تعلیم سے کوسوں دور تھے اس وقت ایک تعلیم یافتہ مسلمان خاتون جس کو کسی مرد کا سہارا بھی دستیاب نہ تھا یورپ کے دروازے پر  ایک  یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رہی تھی۔۔
فاطمہ الفہری کا کردار اور شخصیت ان تنگ ذہن مسلمانوں کے لیے بھی ایک  مثال ہے جو اسلام کے نام پر خواتین پر پابندیاں عائد کر رہے ہوتے ہیں اور خواتین کو تعلیم  جیسے بنیادی حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔۔



تبصرے