Featured post

سرخ لپ سٹک کی تاریخ History of Red lipstick



سرخ لپ سٹک  کی تاریخ 

۔


دور حاضر میں سرخ لپ سٹک خواتین میں مقبول عام ہے۔خواتین کا سرخ لپسٹک کا استعمال مردوں کو گھائل کرنے کے لیے ایک خاص ہتھیار ہے۔۔  
سرخ  لپ سٹک کے رواج اور عام ہونے کا اندازہ ہمارے معاشرے میں اس بات کی مقبولیت سے لگایا جا سکتا ہے کہ لپ سٹک کو ہمارے ہاں سرخی ہی کہا جاتا ہے خواہ سرخی جامنی رنگ کی ہو یا گلابی۔۔ہوتی وہ سرخی ہی ہے۔۔ 

ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی مارلن منرو کے خونی ہونٹ یعنی سرخ لپ سٹک لگائے ہوئے ہونٹ آج بھی مشہور ہیں۔۔😜 

سرخی مطلب سرخ لپ سٹک کا استعمال سب سے پہلے کس نے اور کب کیا یہ تو معلوم نہیں مگر زمانہ قدیم سے ہی  ہونٹوں کا سرخ رنگ خوبصورتی اور کشش کا باعث سمجھا جاتا تھا۔۔ 
ایک اندازے کے مطابق تقریبًا 5000 سال سے ہونٹوں کو سرخ کرنے کا رواج مقبول ہے۔۔قطع نظر اس بات کے ہونٹوں کو سرخ کیسے کیا جاتا ہے ۔۔ 
بعض جگہ اس کے لیے سرخ پاؤڈر کو تیل یا پانی کے ساتھ مکس کر کے استعمال کیا جاتا تھا۔اور بعض اس کے لیے کسی پینٹ کا استعمال کرتے تھے۔۔ 
اور  اس دور کی دلچسپی کی ایک بات مردوں کا بھی میک اپ کا استعمال تھا۔مرد بھی اس دور میں چہرے پر میک اپ وغیرہ کا استعمال کرتے تھے۔۔ 
5000 سال قبل میسوپوٹیمیا کی خواتین ہونٹوں کو سرخ کرنے کے طریقے سے آگاہ تھیں ۔۔ 
سمیری تہذیب کے لوگ بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کرنے کے  شوقین تھے اور اس کے لیے وہ قیمتی پتھروں کو پیس کر اس کو سفید پارے کے ساتھ مکس کر کے استعمال کرتے تھے۔۔ 
ہونٹوں پر سرخی لگانے کی یہ سب معلومات اس دور کے مقبروں کی کھدائی اور وہاں سے ملنے والے سامان اور اس دور کی تصویروں،پینٹنگز اور مجسموں پر تحقیق سے حاصل ہوئی ہیں۔۔۔ 
برصغیر پاک و ہند یا وادی سندھ میں سرخی کا استعمال 3000 قبل مسیح کے دور سے شروع ہوتا ہے۔۔جب اس سرزمین کے لوگ قیمتی پتھروں کے سفوف کو ہونٹوں اور آنکھوں پر رنگ کے لیے استعمال کرتے تھے۔۔ 

چینی خواتین میں بھی ہونٹوں کو سرخ کرنے کا رواج زمانہ قدیم سے ہی ہے ۔ 

قدیم مصر کی خواتین بھی ہونٹوں پر سرخی لگانے کی شوقین تھیں اور اس عمل کو وہ پرکشش نظر آنے کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل خیال کرتی تھیں۔۔یہی وجہ ہے کہ اس دور کی پینٹنگز اور مجسموں میں یہ چیز بہت واضح نظر آتی ہے۔ 
مشہور ملکہ نیفرتی تی اور اس کی  خوبصورتی کے تو سب ہی قائل ہیں اور اس کے سرخ ہونٹوں کو آج بھی خوبصورتی کی مثال خیال کیاجاتا ہے۔۔ 


اس عمل کے لیے مصری خواتین برومین مائینیٹ ، آئیوڈین اور سمندری پودوں کے مکسچر کا استعمال کرتی تھیں۔۔ 
مشہور زمانہ قلوپطرہ سرخی کے لیے 
کارمین بیٹلز اور چیونٹیوں  کے سفوف کا استعمال کرتی تھی۔۔ 
براعظم امریکہ میں بھی خواتین ہونٹوں کو سرخ کرنے کی شوقین تھیں۔۔۔ مایا تہذیب کی خواتین ہونٹوں کو سرخ  کرنے کے لیے پینٹ کا استعمال کرتی تھیں۔جس کا سب سے پرانا ثبوت  تیرہویں صدی کی ایک کتاب سے ملتا ہے۔۔ 
سولہویں صدی میں ملکہ الزبتھ اول ہونٹوں پر سرخی لگا کردربار میں آنے کے حوالے سے مشہور ہے اور اس کے علاوہ اس نے ایک اور فیشن کی بنیاد رکھی اور وہ ہے ہونٹوں پر کالی لپ سٹک کا استعمال۔۔۔ 
اس کی لپ سٹک مکھیوں کے موم اور پودوں کے سفوف سے تیار کی جاتی تھی۔۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مردوں میں سرخی لگانے کا عمل متروک ہوتا گیا ۔۔ 
کہا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس کے قبل کے فرانسیسی امراء سرخی کا استعمال کرنے والے مردوں کے آخری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔۔ 
جدید دور کی پہلی لپ سٹک جو کہ ان الفاظ پر پورا اترتی ہے وہ 1884 میں فرانس میں بنائی گئی۔۔ 
بیسویں صدی میں سرخ رنگ کی لپ سٹک کا استعمال شخصیت کو پرکشش،پراعتماد اور صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے  لیے عام بن گیا تھابہت سے علاقوں میں یہ تصور  تھاکہ جب کوئی لڑکی سرخ لپ سٹک لگانا شروع کر دیتی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب یہ لڑکی میچور اور عورت بن چکی ہے۔۔ 


بحرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرخ لپ سٹک خوبصورتی کو مزید نمایاں کرتی ہے بلکہ صنف مخالف  کے ساتھ ساتھ خواتین کی توجہ حاصل کرنے کا بھی  زیادہ باعث بنتی ہے۔۔ 


تبصرے