Featured post

قطب الدین ایبک Qutb al-Din Aibak

قطب الدین ایبک ہندوستان کا سب سے پہلا مسلمان بادشاہ 

اگر یہ کہا جائے کہ قطب الدین ایبک وہ شخص تھا جس نے صحیح معنوں میں ہندوستان کو ایک مسلم سلطنت بنایا تو یہ غلط نہیں ہو گا ۔کیونکہ اس سے پہلے سبھی بادشاہ آتے تھے حملہ کرتے مقامی لوگوں پر اپنا نگران مقرر کرتے اور واپس اپنے علاقے کا رخ کرتے ۔ 
مگر قطب الدین ایبک اس کے برعکس تھا جس کی وفات بھی یہیں ہوئی اور تدفین بھی۔  
سلطان شہاب الدین غوری ہندوستان پر حملہ آور ہو کر دہلی اور اجمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے قطب الدین ایبک کو یہاں کا نگران بنانے کے بعد واپس چلا گیا ۔قطب الدین ایبک کہنے کو تو سلطان کا غلام تھا لیکن سلطان کو وہ بیٹوں کی مانند عزیز تھا ۔ سلطان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی صرف ایک بیٹی تھی اسی لیے سلطان غوری کو غلام خریدنے اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنے اور ان کو ایک کامیاب انسان بنانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے ایک دفعہ کسی امیر نے سلطان سے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ کی کوئی اولاد نرینہ ہوتی جو آپ کے بعدآپ کے نام کو سنبھال سکتی تو اس پر سلطان نے کہا تھا کہ میرے ایسے کئی سعادت مند بیٹے موجود ہیں جو میرے مرنے کے بعد برسوں تک میرا نام بلند رکھیں گے۔ 
قطب الدین ایبک کو بچپن میں ترکستان سے نیشاپور لایا گیا تھا جہاں اس کو قاضی فخر الدین نے خرید لیا اور اس کی اپنی اولاد کے ساتھ پرورش کی اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس نے قران حفظ کر لیا ۔قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے اس کو کسی اور کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور اس شخص نے اس کو     سلطان کو بطور تحفہ دے دیا۔کہتے ہیں کے قطب الدین کی ظاہری شکل و صورت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی اور اس کی انگلی (چھوٹی انگلی) ٹوٹی ہوئی تھی اسی بنا پر اس کو ایبک کہا جانے لگا تھا۔ 
جہاں میدان جنگ میں اس نے اپنی شجاعت اور جوانمردی سے نام پیدا کیا وہیں وہ فیاضی اور خوش اخلاقی کی بنا پر  اس توصیف میں اضافہ ہوا اور وہ سلطان کی نظروں میں ایک لائق اور قابل شخص کا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اسی بنا پر ہندوستان سے واپسی پر سلطان نے اس کو ہندوستاں کا نگران مقر ر کیا۔ 
قطب الدین ایبک نے تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے شادی کی تھی جو کہ اس کی طرح سلطان شہاب الدین غوری کا غلام تھا۔ناصر الدین قباچہ اور التمش ایبک کے داماد تھے۔قطب الدین کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی التمش کے ساتھ شادی ہوئی اور دوسری کی ناصر الدین قباچہ کے ساتھ اور اس کی موت کے بعد اس کی تیسری بیٹی کی شادی بھی ناصر الدین قباچہ کے ساتھ ہوئی۔التمش  کو قطب الدین نے ایک سوداگر سے خریدا تھا اور اس کو لے پالک بیٹے کے طور پر پالاتھا۔   ناصر الدین قباچہ ملتان اور سندھ کا حاکم تھا اور التمش ایبک کے بعد سلطنت دہلی کا بادشاہ بنا۔ایبک کی وفات چوگان کھیلتےہوئے گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے ہوئی اور اس کا مزارلاہور میں انارکلی بازار میں ہے۔قطب الدین نے کی ہندوستان پر حکمرانی کا عرصہ تقریبا 5 سال ہے جبکہ سلطان غوری کے جانب سے نگران بنائے جانے کا عرصہ شامل کرنے کے بعد یہ مدت 20 سال بنتی ہے۔ 
اب ایک نظر قطب الدین ایبک کی عملی زندگی پر 
   
٭588ہجری میں سلطان غوری نے اجمیر اور دہلی کے راجوں کو شکست دی اور اس کےبعدقطب الدین کو سپہ سالار مقرر کرنے کے بعد سلطان واپس روانہ ہو گیا۔ 
سپہ سالار مقرر ہونے کے بعدقطب الدین نے میرٹھ اور اردگرد کے علاقوں کو فتح کیا اور اس کے بعد دہلی کے قلعہ پر حملہ کیا اور کافی دنوں کے محاصرہ کے بعد آخرکار وہ اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔  
٭589ہجری میں ہانسی میں راجہ جیتواں کو شکست دی 
٭590ہجری  میں سلطان غوری بنارس اور قنوج پر حملہ کے لیے غزنی سے روانہ ہوا ایبک کو جیسے ہی سلطان کے آنے کی اطلاع ملی تو قطب الدین بہت سے تحائف کے ہمراہ سلطان کی خدمت میں پیش ہوا سلطان نے ایبک کو لشکر کا پیشرو مقرر کیا اور بنارس پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوا 
  سلطانی لشکر کی آمد کا سن کر بنارس کا راجہ جے چند اپنے لشکر کے ساتھ مقابلے کے لیے قطب الدین ایبک کے مقابل آیا ۔اس معرکے میں قطب الدین ایبک کو فتح حاصل ہو ئی اور راجہ جےچند اس معرکے میں مارا گیا۔  
کہتے ہیں کے ایبک نے بنارس سے لے کر بنگال تک تمام اہم شہر تباہ کر دیے تھے۔روایت ہے کہ بنارس کی فتح میں سلطان غوری کو ایک سفید ہاتھی بھی ملا تھا جو کہ اس نے قطب الدین ایبک کو دے دیا تھا 
جو کہ ساری زندگی قطب الدین کے ساتھ  رہا اور قطب الدین کی وفات کے تیسرے دن وہ ہاتھی بھی مر گیا تھا۔ 
٭592ہجری میں دہلی کی جامع مسجد کی تکمیل ہوئی جس کی تعمیر قطب الدین کے حکم پر شروع ہوئی تھی۔ 
اسی سال قطب الدین گوالیار پر لشکر کشی کے لیے روانہ ہوا راجہ گوالیار نے جنگ کی بجائے قطب الدین کی اطاعت کرنا قبول کیا۔ 
اسی دوران نتران کے  راجپوتوں نے ہندوؤں کا ایک مشترکہ لشکر تیار کیا کہ اجمیر کو مسلمانوں سے آذاد کروایا جائے قطب الدین اطلاع پا کر ان سے مقابلے کے لیے روانہ ہوا ۔جنگ کے دوران  قطب الدین کا گھوڑا زخمی ہو کر گر پڑا اس صورتحال کو دیکھ کر مسلم لشکر  بدہواس ہو گیا اور سپاہی بڑی مشکل سے قطب الدین کو لے کر اجمیر پہنچے ۔ان کے پیچھے راجپوت بھی فتح کے شادیانے بجاتے اجمیر کو روانہ ہوئے۔   
قطب الدین کی وقتی شکست کی اطلاع پا کر سلطان غوری نے امدادی لشکر روانہ کیا اسی دوران موسم سرما کا آغاز ہو گیا اور ہندو لشکر منتشر ہو گیا۔ 
٭593ہجری میں قطب الدین اپنے لشکر کے ہمراہ گجرات پر حملے کے لیے روانہ ہوا اور  اپنے راستے میں آتے ہوئے تمام قلعوں کو فتح کرتا ہوا گجرات میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا  گجرات کو اپنی عملداری میں شامل کرنے اور وہاں پر اپنا امیر مقرر کرنے کے بعد قطب الدین واپس دہلی آگیا۔ 
٭599ہجری میں قطب الدین نے کالنجر پر حملہ کیا اور ایک طویل محاصرے کے بعد فتح قطب الدین کے حصے میں آئی۔ 
٭602ہجری میں سلطان غوری گھکروں کے ایک حملے میں شہید ہو گیا۔اس کے بعد سلطان کا بھتیجا تخت نشیں ہوا جس نے قطب الدین کو بادشاہ ہونے کا خطاب اور تمغہ بھیج دیا یوں قطب الدین کی خورمختاری کا آغاز ہوا۔ 

قطب الدین کی خورمختاری کے ساتھ ہندوستان پر اس حکمران سلسلے کا آغاز ہوا جسے خاندان غلاماں کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ 
٭ء603/1205 ہجری 
ہجری میں تاج الدین یلدوز نے جو کہ قطب الدین کا سسر لگتا تھا رشتہ میں لاہور پر حملہ کر کے لاہور پر قبضہ کر لیا قطب الدین کو جب اطلاع ملی تو وہ اس سے مقابلہ کے لیے لشکر لے کر روانہ ہوا اورتاج الدین کو شکست دے کر دوبارہ لاہور کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔قطب الدین تاج الدین کا پیچھا کرتے کرتے غزنی تک چلا گیا اور تاج الدین کو غزنی سے بھی نکال دیا لیکن قطب الدین کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی اور قطب الدین سے تاج الدین نے غزنی واپس لے لیا اور قطب الدین واپس لاہور آنا پڑا۔ 
٭1210 میں سلطان نے چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر وفات پائی اور لاہور میں اس کی تدفین ہوئی۔ 
قطب الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا آرام شاہ تخت نشیں ہوا مگر وہ سلطنت کا یہل ثابت نہیں ہو سکا اور سلطان کے مرنے کے صرف ایک سال بعد سلطنت حصوں میں بٹ گئی۔ 
دہلی کی فتح کے مطلق ابن بطوطہ کی روایت ہے کہ اس نے قاضی سندھ اور ہند سے سنا کہ دہلی 574 ہجری 1188 کو سلطان شہاب الدین غوری کے ایک غلام جسے اس نے لشکر دے کر بھیجا نے فتح کی ۔اور یہی تاریخ دہلی کی جامع مسجد کے محراب پر اس نے لکھی دیکھا۔    
قطب الدین ایبک کی سلطان شہاب الدین غوری سے وفاداری کا ایک واقعہ  
قطب الدین کو جب ہندوستان کا سپہ سالار مقرر کیا گیا تو اس کی کارکردگی اور فتوحات کو دیکھتے ہوئے غزنی میں موجود امراء نے سلطان غوری کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ قطب الدین کا ارادہ بادشاہ بننے کا ہے اور وہ بغاوت کا ارادہ رکھتا ہے اس کی خبر قطب الدین کو بھی ہو گئی وہ یہ خبر ملتے ہی سلطان کی خدمت میں پیش ہو گیا اور اس کے دشمنوں کو خبر تک نہ ہوئی اگلے دن سلطان نے قطب الدین کو اپنے تخت کے نیچے چھپا دیا اور ان امراء سے قطب الدین کی بابت دریافت کیا انھوں نے پھر کہا کہ وہ باغی ہے اور سلطنت کا ارادہ رکھتا ہے تو سلطان نے آواز دی اے ایبک تو اس نے جواب دیا لبیک یعنی حاضر ہوں تو وہ ۔حاسدین ششدر رہ گئے اور سلطان سے معافیاں اور جان بخشی کی فریاد کرنے لگے تو سلطان نے ان کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ آئندہ ایبک کی بد خوئی اور عیب جوئی سے اجتناب کرنا ۔ 
دہلی کا قطب مینار اور جامع مسجد جو قطب الدین ایبک نے تعمیر کروائی تھیں آج بھی ہندوستان کے پہلے بادشاہ کی یاد دلاتی ہیں۔ 

تبصرے