Featured post

سلطان ناصر الدین محمود Nasir ud-Din Mahmud

دور حکومت خاندان غلاماں

  سلطان ناصر الدین محمود 



رضیہ سلطانہ کے قتل کے بعد دہلی پر معز الدین بہرام شاہ کی حکومت قائم ہو گئی مگر وہ دو سال کے قریب حکومت کر سکا اور 639 ہجری میں قتل کر دیا گیا اس کے بعد علاؤ الدین مسعود دہلی کے تخت پر بیٹھا مگر اس کا دور اقتدار بھی مختصر رہا ۔امراء نے اس کی بد کرداری اور ظلم و ستم سے تنگ آ کر اس کو معزول کر کے قید کر دیا اور ناصر الدین محمود سے حکومت سنبھالنے کی درخواست کی ۔ناصر الدین محمود اس وقت بہرائچ کا حاکم تھا۔علاؤ الدین کی حکومت کا عرصہ چار سال ایک مہینہ رہا۔ 
ناصر الدین محمود التمش کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا ۔التمش کے سب سے بڑے بیٹے کا نام ناصر الدین تھا ۔التمش کا سب سے چھوٹا بیٹا اس کے بڑے بیٹے کی وفات کے بعد پیدا ہوا تھا تو سلطان التمش نے اپنے بڑے بیٹے کی یاد میں اس کا نام بھی ناصر الدین رکھ دیا۔التمش نے ناصر الدین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔ بہرام شاہ کے دور حکومت میں ناصر الدین کو فید کر دیا گیا تھا۔اور علاؤ الدین نے تخت نشین ہونے کے بعد اس کو قید سے نکال کر بہرائچ کا حاکم بنا دیا۔اور بہت جلد ناصر الدین  اپنی رحم دلی اور انصاف پسندی کی وجہ سے عوام میں مقبول ہو گیا۔ چنانچہ ناصرالدین کی نیک نامی سے ہی متاثر ہو کر امراء دہلی نے تخت ناصر الدین کے حوالےکیا۔ 

ناصر الدین نے تخت نشین ہونے کے بعد غیاث الدین بلبن کو جو کہ التمش کا غلام تھا وزارت کا منصب عطا کیا۔اور اس کی بیٹی سے شادی کر لی۔اور اس کے چچیرے بھائی شیر خان کو پنجاب اور ملتان کی صوبیداری سونپی تا کہ وہ افغانستان کے رستہ حملہ آور ہونے والے مغلوں کے حملوں کا تدارک کر سکے۔ ناصرالدین محمود نے تقریبا 20 سال حکومت کی ۔سلطان ناصر الدین کا سب سے بڑا کارنامہ اشاید یہی ہے کہ اس نے اپنی سلطنت اور عوام کو ہلاکو خان کی بربریت سے بچائے رکھا ۔ 
ناصر الدین محمود کی شہرت ایک رحم دل ،سادہ اور خدا ترس سلطان کی تھی۔اور وہ ہر طرح کی خود نمائی سے احتراز برتتا تھا۔اس نے دوران قید روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قران مجید کی کتابت کی اور سرکاری وظائف لینے سے انکار کر دیا۔تخت نشین ہونے کے بعد بھی اس نے اخراجات کے لیے قران مجید کی کتابت کو اپنایا۔اپنے آباؤ اجداد کے برعکس اس نے اپنی خدمت کے لیے کسی لونڈی کو رکھنا پسند نہ کیا۔اس کی ایک ہی بیوی تھی اور جو گھر کے کام کاج بھی خود ہی کرتی تھی۔ایک دفعہ اس کی بیوی نے شکایت کی کہ اس کے لیے کھانا پکاتے ہوئے اس کی انگلیاں جل گئی ہیں اس لیے کام کاج کے لیے ایک لونڈی رکھنے کی اجازت دی جائے تو سلطان نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ سرکاری دولت  عوام کی امانت ہے اور 
مجھے کوئی حق نہیں  کہ بلاوجہ اور بلا ضرورت اپنی ذات کے لیے  اخراجات کروں۔ 

*10 جون 1246  (644 ہجری )کو ناصر الدین محمود تخت نشین ہوا۔ 
جولائی 1247 میں سلطان خود ایک لشکر لے کر ملتان کی طرف روانہ ہوا اور دریائے سندھ کے کنارے پراؤ ڈالا اور غیاث الدین بلبن کو ککھروں کی سرکوبی کے روانہ کیا جو کہ ایک عرصہ سے لوٹ مار اور قتل و غارت میں ملوث تھے۔اس حملے میں بہت سے گکھر مارے گئے اور ہزاروں کو قید کرلیا گیا۔اور اس دوران سلطان نے لاہور اور ملتان کے کئی امراء اور جاگیردار جو کہ التمش کے زمانہ سے وہاں موجود تھے مگر انھوں نے صدق دل سے تخت دہلی کی اطاعت نہیں کی تھی کو برطرف کر دیا اور ان کی جگہ ان کے بیٹوں کو حاکم مقرر کر دیا ۔اور ان معزول امراء کو اپنے ساتھ دہلی لے آیا۔سلطان کے اس فیصلے کی وجہ سے پنجاب اورملتان کے علاقے میں سیاسی اور مالی استحکام پیدا ہو گیا۔ 

*1248 ء 647 ہجری میں سلطان نے اپنے وزیر غیاث الدین بلبن کی بیٹی سے شادی کی۔ 
*645 ہجری میں ناصر الدین نے دو آب کے علاقے کا سفر کیا اور قنوج کا قلعہ فتح کیا۔ 
اسی سال بلبن کی سربراہی میں اس کے لشکر نے راجہ دمکی ملکی کو شکست دینے کے بعد گرفتار کیا جو کہ دریائے جمنا کے کنارے پر ایک علاقے کا راجہ تھا۔جس نے اردگرد کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہوا تھا۔ 
  • 648 ہجری میں ناصر الدین نے ملتان پر حملہ کیا 
  • 649 ہجری میں ملک اعزاز الدین نے بادشاہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔اسی سال بادشاہ ملک اعزاز الدین کی سرکوبی کے لیے ناگور روانہ ہوا ۔ملک اعزاز الدین بادشاہ سے امان کا طلبگار ہوا،بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور اس کو بحال کر دیا۔ 
  • 649 ہجری میں ناصر الدین ایک زبردست لشکر لے کر قلعہ ٹرور پر حملہ آور ہوا یہ قلعہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا اور ہسے راجہ جاہر دیو نے تعمیر کروایا تھا۔جاہر دیو بھی ایک بہت بڑا لشکر لے کر ناصرالدین کے مقابل آیا اور ایک زبردست جنگ کے ناصرالدین کو فتح حاصل ہوئی۔اسی دوران شیر خان نےغزنی  میں مغلوں کو شکست دے کر غزنی شہر پر قبضہ کر لیااور اس طرح غزنی بھی ناصر الدین کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ 
  • 653 ہجری میں باغی امراء قتلغ خان اور عمادالدین کی بغاوت کا قلع قمع کیا جس کے نتیجے میں عما دالدین مارا گیا اور قتلغ خان فرار ہو گیا۔ 
  • 657 ہجری میں شاہی لشکر نے بلبن کی قیادت میں کوہ پایہ،رتھنبور اور سوالک پر لشکر کشی کی اور فتح یابی ان کا مقدر بنی۔ 
  • مارچ 1257 ء 657 ہجری کو ہلاکو خان کا سفیر نے سلطنت دہلی کا دورہ کیا۔سفیر کا استقبال نہایت شان و شوکت سے کیا گیا اور اس استقبال کے ذریعہ سے سفیر کو سلطنت دہلی کی طاقت کا مظاہراہ کرانا مقصود تھا تا کہ ہلاکو خان کو دہلی پر لشکر کشی سے روکا جا سکے۔اس اسقبال میں 50 ہزار سوار ،دو لاکھ پیادے اور دو ہزار ہاتھی شامل تھے۔ 
  • 664 ہجری میں ناصرالدین کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔ 


ناصرالدین کا اخلاق 
کہتے ہیں کہ ایک دن ناصرالدین قران کریم کی تلاوت کر رہاتھا تو ایک فقیر اس کے پاس آیا تو فقیر کی نظر ایک صفحہ پر پڑی جہاں فیہ فیہ دو مرتبہ لکھا ہو تھا فقیر نے کہا کہ یہاں ایک فیہ زائد ہے تو بادشاہ نے قلم منگوا کر ایک فیہ کے گرد دائرہ لگا دیا اور فقیر کے جانے کے بعد اس دائرے کو مٹا دیا۔اس کی وجہ پوچھنے پر ناصر الدین نے کہا کہ یہ اعتراض کرنے والا ایک فقیر تھا اور وہ اپنی ضرورت لے کر میرے پاس آیا تھا۔اگر میں اس کے اعتراض کی تردید کرتا تو وہ نادم ہو کر اپنی ضرورت بتائے بغیر چلا جاتا اس لیے میں نے اس کی موجودگی میں فیہ کے گرد دائرہ کھینچ دیا اور اس کے جانے کے بعد مٹا دیا۔دنیا میں غبار دل دور کرنا مشکل ہے اور کاغذ کا نقش مٹانا آسان۔ 
ناصر الدین کا ایک مصاحب کا نام محمد تھا بادشاہ اسے ہمیشہ محمد کہہ کر بلاتا تھا ایک دن بادشاہ نے اسے تاج دین کہہ کر پکارا  ۔کام مکمل کرنے کے بعد وہ شخص اپنے گھر چلا گیا اور تین دن تک بادشاہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ۔جب اس کو بلایا اور اس کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ خلاف معمول بادشاہ نے اسے جب تاج دین کہا تو تو وہ سمجھا کہ شاید بادشاہ اس سے ناراض ہے۔ اس دکھ سے وہ  حاضر نہیں ہوا اس پر بادشاہ نے اسے  
قسم کھا کر یقین دلایا کہ وہ اس سے ناراض نہیں ہے۔اور اس کو بتایا کہ  جب اس نے اس کو تاج دین کہہ کر پکارا تھا تو وہ با وضو نہیں تھا اور مجھے بغیر وضو محمد نام لیتے شرم آتی تھی۔ 

تبصرے