Featured post

Assassin حشیشین اور حسن بن صباح


حشیشین 



لفظ حشیشین سامنے آتے ہی ذہن میں حسن بن صباح ،اس کی جنت اور قلعہ الموت کا تصور سامنے آتا ہے۔ 
لفظ حشیشین کا    طور پر تو کوئی مطلب نہیں مگر عربی میں حشیشی ان افراد کو کہا جاتا تھا جو حشیش کا استعمال کرتے تھے۔اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس فتنے کے متعلق حشیشی کا لفظ سب سے پہلے فاطمی خلیفہ عامر نے 1122 میں استعمال کیا تھا۔ اور یہی پھر حشیشین کہلائے جانے  لگا۔۔کیونکہ حسن بن صباح کے فدائیوں متعلق یہی خیال تھا کہ یہ فدائی جب کسی مہم پر نکلتے تو   حشیش کےنشے کا استعمال کرکے نکلتے اور اسی نشے کی حالت میں وہ اپنی مہم سر کرتے۔۔انگلش زبان کا لفظ اساسین  بھی حشیشین سے ہی نکلا ہے۔جو کسی شخص کے سیاسی مفاد کی خاطر قتل کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔مصری عربی میں حشیشی ایسے افراد کو کہا جاتا تھا جو پریشانیاں پیدا کرتے ہوں یا شور شرابا کرنے والے ہوں۔۔۔ 
 ۔ 
حشیشین کے فتنے نے گیارہویں صدی کے آخر میں عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لیا۔۔اس فتنے کا بانی اور سربراہ  حسن بن صباح تھا۔ 
حسن بن صباح اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا ۔ابن خلدون کے مطابق اسماعیلی فرقہ قرامطیوں کا ہی  ایک گروہ ہے اور یہ فرقہ باطنیہ بھی کہلاتا تھا۔ 
حسن بن صباح جو علم و نجوم  اور دوسرے علوم میں مہارت رکھتا تھا اور جوڑ توڑ اور ساز باز کا بھی ماہر مانا جاتا تھا۔۔حسن بن صباح احمد بن عطاش کا شاگرد بھی رہا۔۔ 
حسن بن صباح نے اپنی اس تحریک کے مرکز کے طور قلعہ الموت کو اپنا مرکز بنایا جس پر اس نے 1090 میں اس نے قبضہ کیا۔۔ 
حسن بن صباح نے قلعہ الموت میں ایک مصنوعی جنت تیار کی اور پھر قاتلوں کا ایک گروہ تیار کیا جنہیں وہ مختلف اہم شخصیات کے قتل پر معمور  کرتا تھااور مقصد میں کامیابی پر وہ  اس جنت کے حقدار ہوتے۔۔ 
ان حشیشین کے قتل کا طریقہ کار  ایک زہر بھرا خنجر ہوتا  جس سے وہ اپنے شکار پر حملہ آور ہوتے اور ناکامی کی صورت میں وہ اسی خنجر سے اپنا کام تمام کر لیتے۔۔۔ 
ان حشیشین کا دائرہ کار زیادہ تر شام ایران اور ترکی کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔۔سلجوق حکمران  ان کا خاص ٹارگٹ رہے۔۔ 
اس فتنے کا سب سے پہلا  اہم نشانہ سلجوق سلطنت کے قابل ترین اور مشہور وزیر نظام الملک طوسی تھے  جنہیں ان خوفناک قاتلوں نے  اکتوبر 1092 میں قتل کیا۔۔ 
آہستہ آہستہ اس فتنہ کے پیروکاروں نے کئی پہاڑی قلعوں پر قبضہ کر کے اپنا مسکن بنا لیا۔۔اور یہ طاقت میں اس قدر بڑھ گئے تھے ان کے خاتمے کے لیے کی گئی مہمات ناکام ہوئیں۔۔ 
قلعہ الموت جو کہ موجودہ ایران کے علاقے میں ہے اس فتنے کے سربراہ کا ٹھکانہ سمجھا جاتا تھا اور یہ بھی ناقابل شکست رہا تھا اب تک۔۔مگر پھر انھوں نے ایک طوفان کا رخ اپنی طرف موڑ دیا جس نے ان کو تباہ برباد کر دیا۔اور یہ طوفان منگولوں کا تھا جس کے سردار اور ہلاکو خان کے بھائی کے قتل کا منصوبہ اس گروہ نے تیار کیا اور یہ منصوبہ تو ناکام ہو گیا مگر منگولوں نے اس کے بدلے میں  1256میں قلعہ الموت اور اس کے اردگرد اس فتنے کے تمام ٹھکانے تباہ برباد کر دیے اور اس فتنے کا خاتمہ کر دیا۔ 
قلعہ مصیاف اس گروہ کا شام میں ہیڈ کوارٹر تھا  جس پر مختلف مہمات ناکام رہیں تھیں۔ 
حتی کے صلاح الدین ایوبی کی ان کے خلاف مہم بھی نامکمل اور ناکام رہی۔۔ 
صلاح الدین کی یہ مہم 1176 کا واقعہ ہے۔ 
قلعہ مصیاف پر منگولوں نے 1260 میں قبضہ کیا اور خوب قتل عام کیا۔مگر منگولوں کے جانے کے بعد پھر سے یہ گروہ یہاں قابض ہو گیا جس پر سلطان بیبرس نے چڑھائی کی اور ان کا قلع قمع کیا۔۔ 

حشیشین کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئی کچھ اہم شخصیات۔ 
نظام الملک طوسی  ۔۔سلجوک سلطنت کا وزیراعظم اور ایک زبردست عالم ۔۔ 
یروشلم کا بادشاہ کونراڈ جسے بارہویں صدی کے آخر میں نشانہ بنایا گیا۔ 
1213 میں شریف مکہ کا کزن ان کا نشانہ بنا جس کی شکل شریف مکہ سے بہت حد تک ملتی تھی۔۔عام خیال یہی ہے کہ نشانہ شریف مکہ ہی تھےمگر ان کی جگہ ان کے کزن پر حملہ ہو گیا۔۔ 
خلیفہ مسترشد اور اس کا بیٹا الراشد  جو باپ کے بعد خلیفہ بنا تھا۔۔1135-1137

حشیشین کی تاریخ یا اس سے متعلقہ تاریخ  کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ اکثر لکھا گیا ہے کہ عمر خیام،نظام الملک طوسی اور حسن بن صباح تینو ں ہم مکتب تھے۔۔اور زمانہ طالبعلمی کے دوست بھی۔۔۔ 
مگرجب ان کی تاریخ کو تھوڑا تفصیل سے پڑھا جائے تو  ان تینو ں کی عمر میں فرق واضح دکھائی دیتا ہے۔۔ 
ہاں عمر خیام اور حسن بن صباح تو ہم عمر ہو سکتے مگر نظام الملک طوسی کا ان کا ہم عمر ہونا اور ہم مکتب ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔۔ 
نظام الملک طوسی 
نظام الملک طوسی کی تاریخ پیدائش 1018 کی ہے 
اور اس کے قتل کا واقع 1092 میں پیش آیا۔۔ 

عمر خیام  
عمر خیام کی تاریخ پیدائش 1048 ء کی ہے  اور ان کی وفات کا سال 1131 ہے۔۔ 

حسن بن صباح 
حسن بن صباح کی تاریخ پیدائش زیادہ تر اور جنہیں مستند بھی سمجھا جاتا ہے کہ مطابق 1050ء کی ہے اور بعض اسماعیلی روایتوں کے مطابق یہ تاریخ پیدائش 1034 ءکی ہے۔۔اور موت کا سال 1124 ہے جس پر سب متفق ہیں۔۔ 
۔ 
ان تاریخوں کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ حسن بن صباح اور نظام الملک کی عمر میں کم از کم 16 کا فرق ہے اور زیادہ تر اور مستند روایتوں کے مطابق یہ فرق 32 سال کا ہے۔۔ 
اب یا تو نظام الملک انتہائی نکما  طالب علم تھا جو  فیل ہو ہو کر اپنے سے بہت چھوٹے لڑکوں کا  کلاس فیلو بن گیا یا پھر یہ چھوٹے لڑکے بچپن میں ہی اتنے بڑے آدمی کے کلاس فیلو بن گئے۔۔۔جو کہ ایک ناممکن بات ہے۔۔ 
کیونکہ۔۔ 
1059 میں نظام الملک خراسان کے علاقے کا حاکم اورنگران مقرر کیا گیا تھا۔۔ 
اور یہ دور وہ تھا جب عمر خیام اور حسن بن صباح 9 اور11 سال کی عمر کے تھے۔۔ 
1063 میں نظام الملک  وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔۔اور اپنی موت تک اس پر فائز رہے۔۔۔ 

جب یہ دونوں یعنی عمر خیام اور اور حسن بن صباح جوانی کے دور میں داخل ہو رہے تھے تب  نظام الملک بڑھاپے کی دہلیز پار کر رہے تھے۔۔ 
جب یہ دونوں کسی مدرسے میں داخل ہو رہے تھے تب نظام الملک  وزیر جیسے عہدے پر فائز ہو رہے تھے۔۔ 
۔ 
حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو متعلقہ قصے افسانہ ہی لگتے ہیں عمر خیام اور حسن بن صباح تو ہم مکتب ہو سکتے مگر نظام الملک کا ان کا ہم مکتب ہونا ایک فسانہ ہی ہے جسے معلوم نہیں کس بناء پر گھڑا گیا۔۔ 
۔ 

  

تبصرے