- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
Featured post
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
علاؤالدین خلجی کی عملی زندگی
علاؤالدین خلجی 695 ہجری 1395 کو تخت سلطنت پر بیٹھا۔
کچھ عرصہ تیاری اور لشکر کو اکٹھا کرنے کے بعد وہ دہلی
کو روانہ ہوا اور 696 ہجری 1393 کو وہ دہلی میں تخت نشین ہوا۔
اسی سال اس نے 40 ہزار سپاہیوں کا لشکر الماس بیگ اور
ظفر خان کی سربراہی میں ملتان کی طرف روانہ کیا تاکہ جلال الدین کے بیٹوں سے نمٹا
جا سکے اس لشکر نے دو ماہ تک ملتان کا محاصرہ کیے رکھا اسی دوران ملتان کے شہری
اور امراء علاؤالدین کے لشکر سے مل گئے اور حضرت شیخ رکن الدین کے ذریعے دونوں
فریقین کی ملاقات ہوئی اور ارکلی خان اور رکن الدین نے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو
الماس بیگ اور ظفر خان کے حوالے کردیا جو ان کو لے کر دہلی کی جانب روانہ ہوئے مگر
راستے میں الماس بیگ نے دونوں بھائیوں کی آنکھوں میں سلاخیں پھروا دیں اور ان کے خاندان کے بعض افراد کو قید اور بعض کو قتل کر
ڈالا۔
اسی سال
مغلوں کا ایک لاکھ پر مشتمل لشکر پنجاب پر حملہ آور ہوا جس کو ہندوستانی لشکر نے
شکست دی اس جنگ میں تیرہ ہزارمغل سردار اور سپاہی مارے گئے اور ہزاروں گرفتار ہوئے
جن کو قتل کر دیا گیا۔
ان مسائل سے نمٹنے کےبعد علاؤالدین نے اپنے بھائی الغ
خان سے مشورے کے بعد ان سب امراء کی آنکھوں میں سلاخیں پھروا کر گرفتار کر لیا
جنھوں نے لالچ میں آ کر جلال الدین اور اس کی اولاد سے غداری کی تھی ۔
٭697ہجری کے
آغاز میں علاؤالدین نے ایک لشکر گجرات کی فتح کے لیے بھیجا اور وہ فتحیاب رہا ۔اس
مہم میں راجہ رائے کرن جو کہ نہروالہ کا راجہ تھا کو شکست ہوئی اور اس کی رانیوں
خاص طور پر رانی کنولا دیوی اور خزانے اور ہاتھیوں پر قبضہ کر لیا۔
رانی
کنولا دیوی جو کہ اپنی خوبعصورتی ،ذہانت اور دلربا اداؤں میں اپنا جواب نہیں رکھتی
تھی کو مسلمان کر کے علاؤالدین نے اسے شادی کر لی۔
جالور کی بغاوت جو کہ گجرات کی فتح سے واپسی پر ہوئی جس
میں مغل سردار شامل تھے اور اس میں باغیوں نے ملک نصرت کے بھائی کو قتل کر دیا تھا
علاؤالدین نے گرفتار کروا کر ملک نصرت کے حوالے کر دیا جس نے ان سے عبرتناک انتقام
لیا اور اس انتقام میں شیر خوار بچوں اور عورتوں تک بھی نہ بخشا گیا ۔
اسی سال
مغلوں کا دو لاکھ سپاہیوں پر مشتمل لشکر منزلیں طے کرتا ہوا دہلی تک آگیا جس کے
مقابلے پر علاؤالدین
2700 ہاتھیوں اور 3 لاکھ سپاہیوں کا لشکر لے کر مقابلے پر آیا اس تعداد کے لشکر ا
سے پہلے ہندوستان میں کہیں مقابل نہیں آئے تھے۔اسمیں بھی مغلوں کو شکست ہو ئی۔
٭699ہجری میں رتھنبور پر حملے کے لیے ایک
لشکر روانہ کیا گیا جو کہ ناکام رہا۔
اسی دوران علاؤالدین اپنے بھتیجے کے قاتلانہ حملے میں
زخمی ہو گیا۔
صحتیاب ہونے کے بعد وہ رتھنبور کی طرف روانہ ہوا
۔بادشاہ نے رتھنبور کے قلعہ کو ایک سال کے محاصرہ کے بعد 700ہجری میں فتح کیا۔راجہ
ہمیر دیو اپنے خاندان کے ہمراہ مارا گیا۔
٭703ہجری میں علاؤالدین نے ایک لشکر تلنگانہ
کے علاقے ورنگل کی طرف روانہ کیا اور خود لشکر لے کر چتوڑ گڑھ کی طرف روانہ ہوا
یہاں کا قلعہ آج تک کسی مسلمان کے قبضے میں نہیں آیا تھا اور اس نے بڑی بہادری سے
9 ماہ تک محاصرہ کرنے کے بعد اس فتح کر لیا۔اور اس کو خضر آباد کا نام دے کر اپنے
بیٹے خضر خان کو دے دیا ۔اور اس ولی عہد نامزد کیا۔یہاں کا راجہ رتن سین گرفتار
ہوا اور قید کر لیا گیا اوراس کا خاندان کوہستان میں نکل گیا۔
یہی وہ راجہ ہے جس کی رانی کا نام پدمنی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نے
ملک کافور کی سربراہی میں ایک لشکر دکن کی طرف روانہ کیا جس نے ان علاقعوں کو تھر
سے مطیع بنایا۔
اسی دوران علاؤالدین نے قلعہ سیوانہ پر حملہ کیا جسے
کئی سال کے محاصرے کے بعد بھی فتح نہ کیا جا سکا تھا علاؤالدین نے اس کی چاروں طرف
سے ناکہ بندی کر کے بلاخر راجہ ستیل دیو نے شکست تسلیم کر لی اور علاؤالدین بہت سے
خزانے کے ہمراہ واپس وا۔
ایک لشکر قلعہ جالور کی تسخیر کے لیے روانہ کیا گیا جو
کہ کامیاب رہا اور اس معرکے میں جالور کا راجہ کانیر دیو قتل ہوا۔
کچھ عرصہ قبل علاؤالدین نے ایک لشکر ورنگل روانہ کیا
تھا جو کہ ناکام واپس آیا تھا اب کی بار اس نے 709 ہجری میں ایک اور زبردست لشکر
ورنگل کی طرف روانہ کیا جو کہ اب کی بار بے پناہ قتل و غارت اور طویل محاصرے کے
بعد کامیاب رہا۔اور راجہ لدردیو نے اطاعت کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
کابل اور سندھ سے لےکر بنگال اور گجرات کا سارا علاقہ فتح ہو چکا
تھا اور دکن میں بھی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا اب علاؤالدین نے ساحل سمندر کے علاقوں کی طرف رخ کیا
٭710ہجری میں بادشاہ نے ملک کافور اور خواجہ
حاجی کو کرناٹک کی فتح کے لیے بھیجا جو راستے میں ہر چیز کو شکست دیتے کرناٹک کے
راجہ بلا دیو کے مابل پہنچے اور شکست دینے کے بعد اس کے دارلسلطنت کو فتح کر
لیا۔یہاں سے بہت سا خزانہ ہاتھ لگا اور یہ سب لے کر ملک کافور 711 ہجری میں واپس
آیا اور بادشاہ کی خدمت میں یہ سب پیش کیا جو کہ 312 ہاتھیوں۔بیس ہزار گھوڑوں
چھیانوے من سونا بہت سے موتیوں کے صندوکوں پر مشتمل تھا۔ کرناٹک کی دولت مندی کا یہ عالم تھا کہ وہاں چاندی کے ذیور
کو ذلت سمجھا جاتا تھا اور متوسط طبقے کے لوگ بھی سونے کے برتنوں میں کھانا کھاتے
تھے۔
بادشاہ نے اچانک ایک فیصلہ کے ذریعہ تمام نو مسلم مغلوں
کو نوکریوں سے نکال دیا ان میں سے کچھ مغلوں نے جو کہ غربتکے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے
تھے بادشاہ کے قتل کا ارادہ کیا بادشاہ کو اس کی خبر ہو گئی تو اس نے غضب ناک ہو
کر فرمان جاری کیا کہ مغلوں کو قتل کر دیا جائے یہ فرمان عام ہوتے ہی پورے ملک میں
مغلوں کا قتل عام شروع ہو گیااورچودہ پندرہ ہزار مغل قتل کر دیے گئے یوں ہندوستان
سے مغلوں کی پوری نسل کا خاتمہ ہو گیا۔
٭712ہجری
میں ایک بار پھر ملک کافور کی سربراہی میں لشکر کرناٹک اور اس کے گردونواح کی
شورشوں کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا جو کہ تمام علاقوں کو باجگزار بنانے کے بعد
لوٹا۔
اسی عرصے میں علاؤالدین کی صحت گرنے لگی تھی اور وہ
بیمار رہنے لگا تھا
٭716ہجری 1216 ء کو علاؤالدین کا انتقال ہوا۔
تاریخ میں آتا ہے کہ اس نے زندگی میں چوراسی چھوٹی بڑی
جنگیں لڑیں اور وہ ہر میں فاتح رہا۔
علاؤ الدین نے سلطنت میں خرید و فروخت کے قائدے مرتب
کیے تھے جو کہ بہت بہترین کام سمجھا جاتا ہے۔جس میں
غلے کی
خرید و فروخت کا قائدہ۔
غلے کی خرید و فروخت کی نگرانی کے لیے محکمہ بنایا تاکہ
اس نظام کو کنٹرول کیا جا سکے اور زخیرہ اندوزی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ہر شخص صرف اپنی ضرورت کا غلہ خرید سکتا تھا زائد
خریداری پر سزا کا اطلاق ہوتا۔
کپڑے کے نرخ مقرر کیے گئے۔
گھوڑوں کی ان کی نسل کے اعتبار سے قیمت مقرر کی گئی۔
غلاموں اور کنیزوں کی درجہ بندی کی منسبت سے قیمت کا
تقرر۔
گائے بھینسوں اور مویشیوں کی قیمت کا قائدہ
اس کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی کی بھی قیمتوں کا تعین
کیا گیا تھا۔
غرض یہ کہ علاؤالدین نے سلطنت کا نظم وضبط بھی بہترین
بنانے کے لیے بہت کام کیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں