Featured post

علاؤالدین خلجی Alauddin Khalji part 1


علاؤالدین خلجی


 
جلال الدین خلجی کے قتل کے بعد علاؤالدین نے اپنے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنے امرء اور ساتھیوں کو اعزازات اور خطابات سے نوازا۔ادھر دہلی میں ملکہ نے اپنے بیٹے شہزادہ رکن الدین کو تخت پر بٹھا دیا جو کہ ابھی نا تجربہ کار تھا اور شہزادہ ارکلی خان ملتان کا حاکم تھا ۔علاؤالدین کو جب رکن الدین کی تخت نشینی کی خبر ملی تو وہ اپنا لشکر لے کر دہلی کی جانب روانہ ہوا دہلی میں بہت سے امراء ملکہ کے فیصلہ کی وجہ سے نالاں تھے ۔علاؤالدین نے اپنے ساتھیوں پر خزانے کے منہ کھول دیے اور اس بنا پر سب اس کا ساتھ دینے پر آمادہ تھے ۔ایک کثیر لشکر کے ساتھ علاؤالدین دہلی پہنچا رکن الدین اس صورتحال کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملتان فرار ہوگیا ۔اور دہلی میں علاؤالدین کی حکومت قائم ہو گئی۔یوں علاؤالدین اپنے چچا  جلال الدین کو قتل کر کے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ 
تخت نشین ہونے کے 2،3 سال کے اندر ہی اس نے اپنی سلطنت کو مستحکم اور وسیع کر لیا تو  وہ عیش میں ڈوب کر عجیب بیہودہ خیالات میں غرق ہو گیا جس میں سے ایک خیال اس کا اپنی شریعت اور مذہب کا تھا جس پر وہ شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ تذکرہ کیا کرتا تھا۔اور دوسرا وہ دہلی کی حکومت اپنے کسی نائب کے حوالے کر کے سکندر یونانی کی طرح دنیافتح کرنے کو نکلنا چاہتا تھا۔ مگر کوتوال دہلی علادالملک کے سمجھانے پر وہ اپنے ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے سے باز آگیا۔ 
علاؤالدین کے ایک بھتیجے سلیمان نے اپنے چچا کو قتل کر کے بادشاہت حاصل کر کے علاؤالدین اور جلال الدین کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی مگر علاؤالدین خوش قسمتی سے بچ گیا اور معمولی زخمی ہوا مگر اس کے نتیجے میں اس کا بھتیجا قتل کر دیا گیا۔ 
بھتیجے کے بعد علاؤالدین کے بھانجوں نے اس کے خلاف بغاوت کی جس کے نتیجے میں علاؤالدین نے سزا کے طور پر پہلے ان کی آنکھیں نکلوائیں پھر ان کو اذیت دے کر مار مارڈالا۔ 
اسی دوران بادشاہ کی دہلی سے غیر حاضری کے دوران حاجی مولا نامی غلام نے کوتوال دہلی کو قتل کرکے شہر پر قبضہ کر لیا جس کو سلطانی لشکر نے جنگ کے بعد کچھ دن میں واپس لے لیا اور حاجی مولا بے دردی سے مارا گیا۔ 
سلطان نے دہلی آکر بغارتوں کے اسباب جانے تو اسے بتایا گیا کہ عوام اس سے خوش نہیں ہے جس کی وجوہات قوانین کی کمی،بدشاہ کی بے جا شراب نوشی اور عوام کے حال سے بے خبری وغیرہ 
بادشاہ نے ان کے تدارک کے طور پر جاسوسی کا نظام بنایا تاکہ عوا کی حالت اور خیالت سے آگاہی ہو،اس جاسوسی کی حالت ہیاں تک پہنچ گئی تھی کہ امراء کی اپنی بیوی بچوں سے کی گئی بات چیت بھی بادشاہ تک پہنچنے لگی۔  
اس کے بعد بادشاہ نے بھی شراب پینا چھوڑ دی اور شراب پینے پر موت کی سزا رکھ دی۔اس قسم کے اور بہت سے قوانین بنائے گئے۔ 
اس کے بعد بادشاہ مختلف مہمات میں مصروف ہو گیا۔ 
کثرت عیاشی کی وجہ سے وہ کافی ضعیف ہو چکا تھا اور اس کی ملکہ اور بیٹا اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر بادشاہ نےاپنے ایک نائب اور منظور نظر ملک کافور کو اپنے پاس بلوا لیا اور ملکہ اور بیٹے کی بے اعتنائی کا شکوہ ملک کافور سے کیا جو کہ ایک خواجہ سرا ء تھا اور وہ اپنے بادشاہ ہونے کے خواب دیکھتا تھا ۔اس کے لیے یہ صورتحال بڑی حوصلہ افزاء تھی اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر اس نے بادشاہ کو ملکہ اور شہزادے کے خلاف خوب بھڑکایا۔اس کا نتیجے میں خضر خان  جو کہ علاؤالدین کا بیٹا تھا اور ملکہ کو قید کر دیا گیا۔ملک کافور کی سازش کے نتیجے میں ہی علاؤالدین کا بھائی الغ خان بے گناہ قتل ہوا جو کہ اس کا شروع سے وفادار تھا۔ 
ان سب اسباب کی وجہ سے مختلف علاقوں میں بغاوت ہو گئی اور کئی علاقے ہاتھ سے نکل گئے اور یہ خبریں سن سن کر علاؤالدین غم سے گھلتا جاتا اور علاج معالجے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔اور انھیں صدمات سے گھل گھل کر وہ 20 سال حکومت کرنے کے بعد انتقال کر گیا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملک کافور نے اس کو زہر دیا تھا۔ 
۔ 

تبصرے